Daily Islamic Posts

Islam Is The Religion Of Peace

About Author

ABDUL BASIT PRINCE GABOL, Karachi, Pakistan

Breaking

Specially for you

Monday 14 March 2022

March 14, 2022

بیٹی کا مقام و مرتبہ



بسم اللہ الرحمن الرحيم

اللہ تعالی ہماری پوری قوم پر رحم فرماۓ ، آج ایک خبر نے ہلا کر رکھ دیا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، ہاتھ کانپ رہے اور دل لرز رہا ہے۔ پاکستان کے شہر میانوالی میں ایک سفاک والد نے اپنی سات دن کی پھول سی بچی کو پانچ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

بیٹی... دور قدیم و جدید کی جہالتوں کی زد میں:

دور قدیم کے جہلاء بچیوں کو زمیں میں زندہ دفن کر دیتے تھے اور دور حاضر کے جہلاء اس کو ماں کے پیٹ میں ہی اس کو ختم کر ادیتے ہیں، بیٹیوں کی وجہ سے اسقاط حمل کے جرم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، بچی کی ولادت پر اسے اور اس کی ماں کو زندہ جلا دیتا ہے ، بیٹی جیسے معصوم رشتے کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتا ہے کبھی یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش عورت کا جرم قرار دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس! مسلم معاشرے میں مشرکانہ اور جاہلانہ ذہنیت رواج پانے لگی ہے کہ بچیوں کو اپنے لیے باعث عار سمجھا جانے لگا ہے۔

:بیٹی کے بارے اہم اسلامی احکامات
بیٹی اللہ کا انمول تحفہ ہے ، اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ بچی کی پیدائش کو منحوس نہ سمجھا جائے بلکہ اس پر شکر ادا کرتے خوش ہونا چاہیے ، اس کا اچھا اسلامی نام رکھا جاۓ ، اس کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاۓ ، عدہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے ، گھر یلو کام کاج کا خوگر بنایا جاۓ ، نسبت اچھی قائم کی جاۓ ، نکاح جلدی کیا جاۓ ، عزت و احترام اور پیار و محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رکھا جاۓ اس کی
ضرورتوں کو جہاں تک ممکن ہو پورا کیا جاۓ ۔



:بیٹی اللہ کی عطا ہے
آءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَآءُ إِنَٰثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَآءُ ٱلذُّكُورَ
أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَٰثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَآءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُۥ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

لله ملك السموت و الأرض يخلق ما يشاء يهب لمن يشاء إناثا ؤ يهب لمن يشاء الذكور - أو يزوجهم ذكرانا و

إناثا ويجعل من يشاء عقيما" إنه عليم قدير -
(سورۃ الشوری ،رقم الآیات:50،49)

ترجمہ: صرف اللہ ہی زمینوں اور آسانوں کا مالک ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کر تا ہے ، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کر تا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے۔ وہ چاہے تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے۔ بے شک وہ
ذات علم والی ، قدرت والی ہے۔

بیٹی کو منحوس سمجھنا سراسر جہالت ہے:
اولاد کے تذکرے میں رب تعالی نے بیٹیوں کا ذکر پہلے فرمایا۔ کیوں ؟
اس لیے کہ اس وقت کے جہلاء بیٹی کو منحوس سمجھتے تھے۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِٱلْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُۥ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
و إذا بشر أحدهم بالأنثى ظل وجهه مسودا وهو كظيم يتوارى من القوم من سوء ما بشر به أيمسكه على هون أم يدشة في التراب" الا ساء ما يحكمون -
(سورۃ النحل، رقم الآیات:،59،58)

ترجمہ: جب ان کو بیٹی خوشخبری دی جاتی ہے تو ان کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور ان کا دل غم سے بھر جاتا ہے۔ اسے اپنے لیے برا( باعث شرمندگی ) سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھر تا ہے اور دل ہی دل میں یہ سوچتا ہے کہ اس کو ذلت برداشت کر کے
اپنے پاس رہنے دوں یا اسے زمین میں گاڑھ دوں ۔ ان لوگوں نے کتنی بری باتیں از خود ہی بنارکھی ہیں۔

:جہلاۓ عرب کارواج
عرب کے بدو، گنوار اور اجڈ جو بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کو زمین کی تاریکیوں کے حوالے کر دیتے تھے ۔ جہلاۓ عرب کی فرسودہ سوچ کی منظر کشی کرتے ہوۓ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
وقال ابن عباس: كانت المرأة في الجاهلية إذا عملت حفرت حفرة، وتمخضت على رأسها، فإن ولدت جارية رمت بها في الحفرة، وردت التراب عليها، وإن ولدت غلاما حبسته
تفسیر القرطبی،
( تحت سورۃ التکویر)

ترجمہ: جب عورت کے ہاں زچگی کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھود کر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھر اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اس پر مٹی ڈال دی جاتی اور اگر لڑ کا ہو تا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جا تا۔

:بیٹی کو دفن کرنے کا دردناک واقعہ 
دربار نبوت لگا ہے، عرب کا ایک دیہاتی زار و قطار آنسؤوں کی برسات میں بھیگ چکا ہے، روتے روتے ہچکی بندھی ہوئی ہے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ما اجد حلاوۃ الاسلام منذ اسلمت ۔ جب سے اسلام لایا ہوں اسلام کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر پا رہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی میں گھر سے کہیں دور سفر پر تھا جب گھر واپس لوٹا تو وہاں وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل رہی تھی اس کی تو تلی زبان اور معصومانہ شرارتیں... یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے گھر والی کو کہا کہ اس کو تیار کر ! اس نے اسے خوبصورت لباس پہنایا میں اس کو ساتھ لے کر دور ایک جنگل میں چلا گیا۔ گرمی اور لو.... وادی عرب کے تپتے صحرا نے ہمارے قدموں تک کو جھلسا کر رکھ دیا جب میں پسینے میں شرابور ہو جاتا تو میری بیٹی ننھے منے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے سے دوپٹے سے میر اپسینہ پونچھتی۔ یارسول اللہ ! یار سول اللہ ! میں نے ایک جگہ گڑھا کھودا، کھدائی کرتے وقت وہ بار بار اس گڑھے کی طرف دیکھتی اور میری طرف بھی۔ وہ مجھ سے سوال کرتی تھی: ابو! یہ کس لیے گڑھا کھو در ہے ہو ؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر تیار کر لیا اور اس کو اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو وہ چلائی اس نے مجھے دہائی دی وہ ابو ابو کر تی رہی۔ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتی رہی کہ ابو! مجھے مت دفن کر و ابو! مجھے معاف کر دو۔ ابو ا مجھے چھوڑ دو۔ ابو! مجھے ڈر لگتا ہے ۔ ابو ابوا میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی۔ ابو! کبھی بھی واپس نہیں لوٹوں گی۔ ابو ! میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں رہوں گی۔ ابو! میں اکیلی بالکل اکیلی رہ لوں گی ۔ ابو ابو ابو... یہاں تک کہ میں نے اس کے سر پر بھی مٹی ڈال دی۔ آخر وقت تک وہ چلاتی رہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا پتھر دل موم نہ ہوا اور میں اس کو وہیں جنگل میں پیوند خاک کر کے گھر لوٹ آیا۔ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے الفاظ میری کانوں کی ساعتوں سے ٹکرارہے ہیں اس کی معصوم بھولی صورت اور دلر با ادائیں میرے دل پر نقش ہو گئی ہیں۔



یا رسول اللہ کلما ذكرت قولها لم ينفعنى شئی. جب کبھی اس کی باتیں یاد کر تاہوں تو غم کی وجہ سے مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ یارسول اللہ میرا کیا بنے گا ؟ ادھر عرب کا دیہاتی رو رہا تھا اور ادھر فخر دو عالم رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں میں آنسو کے امڈ آۓ موتیوں کی اس لڑی میں محبت و شفقت کے انمول خزینے مچھلکنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماكان في الجاهلية فقد هدمه الاسلام ۔ آپ نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے قبول اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لیے مٹاڈالا۔

(التفسير الكبير ، سورة النحل) 


:بیٹی کی پیدائش پر ایک خاتون کے اشعار 

ام حمزہ عرب کی ایک سمجھ دار اور شاعرانہ مزاج کے حامل عورت تھی ، اس کو بھی یکے بعد دیگرے بیٹیاں پید اہوئیں تو اس کے خاوند ابو حمزہ نے اس وجہ سے گھر آنا چھوڑ دیا اس پر اس نے برجستہ اشعار کہے:





ترجمہ: ابو حمزہ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتا وہ اس لیے ناراض ہے کہ ہم بیٹوں کو جنم نہیں دیتیں اللہ کی قسم یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہماری مثال تو کاشت کار کے لیے زمین جیسی ہے سو جو بویا جاۓ گاوہی کاٹا جاۓ گا۔


بیٹی... جہنم سے بچانے کے لیے ڈھال:

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: دَخَلَت عَلَيَّ امرأَة ومعَهَا ابنَتَان لَهَا، تَسْأَل فَلَم تَجِد عِندِي شَيئًا غَير تَمرَة وَاحِدَة، فَأَعْطَيتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمتْهَا بَينَ ابنَتَيهَا وَلَم تَأكُل مِنهَا، ثُمَّ قَامَت فَخَرَجَت، فَدَخَل النبي -صلى الله عليه وسلم- علينا، فَأَخْبَرتُه فقال: «مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هذه البنَاتِ بِشَيءٍ فأَحْسَن إِلَيهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِن النَّار». (جامع الترمذی، رقم الحدیث:1913) 


ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں قیامت کے دن جہنم سے ڈھال بن جائیں گی۔


بیٹی سے محبت پر جنت:

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: جَاءَتنِي مِسْكِينَة تَحمِل ابنَتَين لها، فَأَطْعَمْتُها ثَلاثَ تَمَرَات، فَأَعْطَت كُلَّ وَاحِدَة مِنْهُما تَمْرَة وَرَفَعت إِلَى فِيهَا تَمْرَة لِتَأكُلَها، فَاسْتَطْعَمَتْها ابْنَتَاهَا، فَشَقَّت التَّمْرَة التي كانت تريد أن تَأْكُلَها بينهما، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرت الذي صَنَعَتْ لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «إِنَّ الله قَدْ أَوجَبَ لَهَا بِهَا الجَنَّة، أَو أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّار».

(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:6787) 


ترجمہ: ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھاۓ ہوۓ میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجور میں اسے کھانے کے لئے دیں اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تا کہ اسے کھاۓ لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیے لیے مانگ لی۔ تو اس نے اس کھجور کے ، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں بیٹوں کو دے دیے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کر دی یا( فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما


دیا ہے۔


بیٹی سے حسن سلوک پر جنت:

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كانت له أنقى فلم ييدها ولم يهنها ولم يؤثر ولده عليها - قال يعنى الذكور - أدخله الله الجنة

(سنن ابی داؤ دور قم الحدیث:5148) 


ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی بچی پیدا ہو وہ نہ تو اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ برا سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح

دے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔ 


تین بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت:

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عال ثلاث بنات قاذبين وزوجهن وأحسن إليهن قلة الجنة

(سنن ابی داؤ دور قم الحدیث:5147) 


ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی ، انہیں ( اخلاقی و معاشرتی ) ادب سکھلایا، ان کی (انچی جگہ شادی کی اور ( بعد میں) ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔


دو بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم : من عال جاريتين حتّى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو وضم أصابعه.

(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:6788) 


ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں. پھر ان کا اچھے گھرانے میں نکاح کر دیا تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے یہ انگلیاں۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔


ایک بیٹی کی اچھی پرورش پر جنت:

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كن له ثلاث بنات فعالهن واواهن وكفهن وجبت له الجنة قلنا: وينتين؛ قال: وينتين، قلنا: وواحدة قال: وواحدة النجم الاوسط 

(للطبرانی،رقم الحدیث :6199) 


ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کی پرورش کرے ، انہیں رہنے کی جگہ دی ، ان کی ضروریات کو پورا کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بیٹیوں کے متعلق سوال کیا کہ ان کی وجہ سے بھی جنت ملے گی تو آپ نے فرمایا کہ ہاں دو بیٹیوں کی وجہ سے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بیٹی سے متعلق سوال کیا کہ اس کی وجہ سے بھی جنت ملے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ایک بیٹی کی وجہ سے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بیٹیوں سے پیار و محبت عطا فرما کر ان سے حسن سلوک


کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔


آمین بجاہ النبی الرحمۃ علی البنات والبنین ۔ صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ 

Sunday 13 March 2022

March 13, 2022

Noon Academy Pakistan's Best learning Application



Noon Academy is Pakistan's #1 Educational App for understudies Classes 1 to 12. BISE understudies get 90%+ imprints in board tests of Matric and Intermediate (Class 9, Class 10, Class 11, Class 12) with complete schedule covered live classes. Plan Physics, Chemistry, Math and Biology for all sheets of Pakistan with educator video include and recorded subject savvy addresses, Quizzes and update test meetings. Download to Study from Pakistan's best instructors.
Likewise on the off chance that you are getting ready for college confirmations and need assistance with section test groundwork for ECAT or MDCAT - then, at that point, Noon Academy is the most ideal decision.

During your web-based classes, bring a breakout with your companions into gatherings and work with your gathering to learn better and ace your tests.

We have the best educators from across Pakistan and furthermore from your school. Early afternoon is an application for web based learning with proficient instructors.

Noon gives educators devices for internet instructing, it is a web-based review application for instructors with video transfers on the web, and top notch recordings with intelligent homerooms.
E-learning, Interactive Classroom App
Go to live classes, take part in live talk with your educator and your companions, and get your questions cleared - all during the class. Early afternoon is the best free internet based instruction stage with intuitive study halls.


Noon gives understudies scored internet based tests! Challenge your companions to online tests and contests, address questions, and see who winds up on the highest point of the leaderboard. You can brag about it at school.

Noon Academy is an e-learning and training stage for optional school, grade school, and secondary school. Everything understudies can partake in a free internet based training stage for home coaching and web based learning with Noon institute.

Noon furnishes you with understudy applications to review online with proficient instructors and online tests with grades for understudies. Work on schoolwork tasks and undertakings with your companions, speak with them continuously, team up with them, post questions, compose replies to your companions' inquiries, and learn together.
Learn online with video:
Noon Academy assists educators with clarifying recordings in top notch and intuitive homerooms. Through various course types and everyday activities, understudies can learn online with instructors through recordings.
Change:
Noon Academy gives the capacity to make online tests for understudies on the web, whether you want to rehearse issues, or plan for a test, or you missed the class. We have recorded examples for you to reconsider at whatever point you need.

Noon Academy is viewed as a reading up apparatus for understudies to learn online by rehearsing. Address heaps of inquiries and update ideas utilizing the training sets made by the best optional school online educators, grade school online instructors, and secondary school online educators.

Noon Academy is the best instrument for online training, we have online educators for optional, and grade school instructing in intuitive homerooms with the most proficient apparatuses for instructors and understudies in e-learning. This reality makes Noon the best free internet based instruction stage for home coaching and web based learning.


Special features :
Classes 6 to 12 (Matric, Inter, O and A Levels) | Daily LIVE classes | Exam Prep
Interactive group for online learning:
Pakistan’s Best Teachers:
Ultimate Teacher's Assistant Tool for E-learning:
E-learning, Interactive Classroom App:
Engage in a friendly competition:
All grades, One app:
All of your friends are here
All grades, One app:
Learn online with video:
Revise:
Practice:
One app to learn it all:



March 13, 2022

فضول خرچی اور جہیز کی شرعی حیثیت



بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ تعالی کا حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ ( سنت خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دونوں کے مجموعے کا نام شریعت ہے اور شریعت پر عمل کرنے کا حکم ہے جبکہ شریعت کے علاوہ باقی جتنے جاہلانہ اور غیر اسلامی رسوم و رواج ہیں ان کو چھوڑنے کا حکم ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر مال کو خرچ کیا جا تا ہے اس بارے میں شریعت کی درج ذیل اصولی باتیں ملحوظ خاطر رکھی جائیں ۔

مال کے بارے چار اہم باتیں:
❶. مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرائع آمدن سے بچیں ، جیسا کہ فراڈ، دھو کہ ، سود، جھوٹ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقہ معاملات ہیں۔ یاد رکھیں مال تو نا جائز اور حرام ذرائع سے بھی مل جاتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی ناراضگی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں ، لڑائی جھگڑے ، بے چینی و بے سکونی ، ذہنی ڈپریشن اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے ، حرام کا لقمہ ایسا زہر ہے جس کی وجہ سے عبادت کی حلاوت کا احساس بھی نہیں ہو تا۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن حرام مال، حرام لباس اور حرام خوراک کی وجہ سے اللہ تعالی انہیں قبول نہیں فرماتے۔
❷. مال کے ساتھ جن حقوق اللہ کا تعلق ہے ان کو بر وقت ضرور پورا کر یں۔ صدقات واجہ جیسا کہ زکوۃ، عشر، قربانی ، صدقہ فطر وغیرہ ہیں اور صدقات نافلہ جیسے مسجد ، مدارسہ ، طلباء د مینبیہ ، اور غرباء مساکین و غیر ہ پر خرچ کرنا۔ یاد رکھیں کہ مال و دولت ملنے کے بعد اللہ تعالی کے حقوق ادانہ کرنا اور جن عبادات کا تعلق مال کے ساتھ ہے مال کے کم ہونے کے خوف کی وجہ سے ان عبادات کو ادانہ کرنا دنیا و آخرت کی بربادی ہے ، مال ختم نہ بھی ہو لیکن انسان کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہو جائے گی اور یہی مال دوسروں کی ملکیت میں چلا جائے گا۔ 3... مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائیگی بروقت کر میں۔ اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اپنی حیثیت کے مطابق ان کے اخراجات کو پور 5/16 ہے۔ والدین ، بہن بھائی ، قریبی رشتہ دار ، ہمساۓ اور ضرورت مند طبقے پر اپنی مالی وسعت کے مطابق خرچ کرنا اسلام کی تعلیم ، اللہ کی خوشنودی اور رضا کا ذریعہ اور مال میں مزید فراخی اور برکت کے حصول کا باعث ہے ۔ اس لیے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اعتدال کے ساتھ مال کو کام میں لاتے رہیں۔ ... مال خرچ کرنے میں بھی حرج نہیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا مناسب نہیں۔ ہمیں نام و نمود اور شہرت کے لیے مال خرچ کرنے سے بچنا چاہیے شادی بیاہ پر فضول خرچی سے بچنا چاہیے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا خیال کرنا چاہیے۔

میانہ روی سمجھ داری کی علامت:
عن أبي الدرداء رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم
قال: من فقه الرجل رفقة في معيشته
(مسند احمد ،حدیث نمبر 21695)
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی کامل درجے کی سمجھ داری یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت میں
میانہ روی قائم کرے۔

ہر حال میں میانہ روی:
عن حذيفة رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أحسن القصد في الغنى وأحسن القصد في الفقر وأحسن القصد في العبادة
(مسند بزار حدیث نمبر 2946)

ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کی فراوانی کے وقت میانہ روی قائم کرنا، تنگدستی اور غربت کے وقت میانہ روی قائم کرنا اور عبادات میں میانہ روی قائم کرنا شریعت میں مقصود ہے اور پسند ید ہ بات ہے۔

مال کے خرچ کرنے کے بارے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اسے احکام شریعت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ ہمارے ہاں مال کے خرچ کرنے کا ایک بہت بڑاموقع شادی بیاہ کا موقع ہو تا ہے ۔ اس موقع پر ”جہیر “ دیا جا تا ہے ۔



جہیز کی عرفی حیثیت:
عربی میں جھز تیاری کرنے کو کہتے ہیں اس سے تجہیز ہے۔
جھز المیت کا معنی ہو تا ہے تجہیز و تکفین یعنی میت کے کفن دفن کا انتظام کرنا، جھز العروس کا معنی ہو تا ہے دلہن کا سامان تیار کرنا۔
ہمارے عرف میں جہیز سے مراد دلہن کو دیے جانے والے سامان کی تیاری کرنا ہے ۔

جہیز کی شرعی حیثیت:
مروجہ جہیز جس کی حقیقت ناجائز مطالبہ ، شہرت و نمود و نمائش، فضول خرچی اور ایک رسم کی پابندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ مذکورہ خرابیوں اور گناہوں کی وجہ سے شرعا ممنوع ہے ۔

❶ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ :
جہیز کے شرعا ممنوع ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اس کالڑ کے والوں کی طرف سے ان کی دلی رضامندی کے بغیر مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں معیار کی فلاں فلاں چیز میں دی جائیں، جو لڑکی والوں پر ایک طرح کا معاشی بوجھ ہو تا ہے اور اس میں ان کی دلی رضامندی بالکل نہیں ہوتی اور دلی رضامندی کے بغیر کسی کے مال کولینا اور استعمال کرنا ایسا عمل ہے جو شرعا ممنوع ہے۔
عن أبي حرة الرقاشي رحمه الله عن عله رضي الله عنه أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال:لا تحل مال امرء مسلم إلا بطيب نفس منه. (السنن الکبری للبیہقی،رقم الحدیث:11877)

ترجمہ: حضرت ابوخرور قاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کامال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا /استعمال کرنا حرام ہے۔

لڑکی والوں کی طرف سے نمودو نمائش کے طور پر دینا:
جہیز کے شرعا ممنوع ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس میں لڑکی والے اسے ہدیہ تحفہ یا صلہ رحمی کے طور پر نہیں بلکہ ریاکاری اور محض نمود و نمائش کے لیے دیتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو اتنا جہیز دیا میں اس سے بڑھ کر دے رہا ہوں۔ اور ریا کاری ایسا عمل ہے جو شرعا ممنوع ہے ۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُبْطِلُواْ صَدَقَٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ
(سورة البقرة،رقم الآية: 264)

ترجمہ : ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کر وجو اپنامال ریا کاری کے طور پر خرچ کر تا ہے ۔
عن محمود بن لبيد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر قالوا: وما الشرك الأصغر يا رسول الله؟ قال: الرياء يقول الله عز وجل لهم يوم القيامة: إذا جزى الناس بأعمالهم الذهبوا إلى الذين كنتم ثراءون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء
(مسند احمد ،رقم الحدیث:23630)

ترجمہ: حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول !شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی تو ریا کاری کرنے والے لوگوں سے اللہ تعالی فرمائیں گے کہ انہی لوگوں کے پاس جاؤ کہ دنیا میں جن کو دکھلانے کے لیے تم اعمال کیا کرتے تھے۔ اور دیکھو کہ تم ان سے کیا بدلہ پاتے ہو۔



❸ جہیز کے موقع پر فضول خرچی:
جہیز کے شرعاً ممنوع ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اس موقع پر فضول خرچی کی جاتی ہے بلاضرورت اور ضرورت سے کہیں زیادہ سامان اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اور فضول خرچی ایسا عمل ہے جو شر عاممنوع ہے ۔

إِنَّ ٱلْمُبَذِّرِينَ كَانُوٓاْ إِخْوَٰنَ ٱلشَّيَٰطِينِ ۖ وَكَانَ ٱلشَّيْطَٰنُ لِرَبِّهِۦ كَفُورًا. (سورۃ بنی اسرائیل در قم الآ :27)

ترجمہ: اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ فضول خرچی ( بلاضرورت یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ان کے مشابہ ہیں ۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت ناشکر اہے ۔

فائدہ: فضول خرچی کر نا شیطان کے بھائیوں ( شیطانی او صاف رکھنے والوں ) کا کام ہے اور فضول خرچی کے نتیجے میں ناشکری در حقیقت شیطان کا کام ہے ۔ اس حقیقت کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ فضول خرچی کرتے ہیں وہی لوگ در حقیقت اللہ تعالی کی ناشکری کرنے والے ہیں۔

❹ غیر شرعی رسم کی پابندی:
جہیز کے شر عاممنوع ہونے کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ اس میں ایک غیر مسلم بالخصوص ہندو قوم کی نقالی اور مشابہت ہے۔ اور غیر مسلم اقوام کی نقالی اور مشابہت ایسا عمل ہے جو شرعا ممنوع ہے ۔

عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تشبه بقوم فهو منهم .
( سنن ابی داؤد در قم الحدیث:4033)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کر تا ہے وہ انہی میں سے ہے ۔

جہیز فاطمی اور مروجہ جہیز :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد خواجہ ابو طالب نے بچپن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ہے ، ہر موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ہے ، اگر چہ ایمان کی حالت میں دنیا سے نہیں گئے۔ جب خواجہ ابو طالب دنیا سے چلے گئے تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ مچوٹی عمر کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں تھے تو ظاہر سی بات ہے کہ ان کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرانی تھی اگر اپنی بیٹی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہانہ بھی دیتے بلکہ کسی اور جگہ ان کا نکاح کر تے تب بھی بحیثیت سربراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر کا ضروری سامان مہیا کرنا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو سامان حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا ہے وہ در حقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مالی کفالت کی ہے ۔


فائدہ: آج اگر کسی شخص کی چار بیٹیاں ہوں اور وہ ایک کو جہیز دے باقیوں کو نہ دے تو اسے کوئی بھی عادل اور انصاف پسند نہیں کہتا.... 

بلکہ اس کے اس طرز عمل کی مذمت کر تا ہے ۔ ذرادلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس کی تعلیمات میں عدل و انصاف ترجیحی بنیادوں پر نظر آتا ہے کیا وہ اپنے عمل سے اس کی مخالفت کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ! اس لیے اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جو سامان حضرت فاطمہ کو دیا گیا وہ در حقیقت اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا۔ جس سے مروجہ جہیز کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو تا۔ اب ذیل میں جہیز کے چند نقصانات ذکر کیے جاتے ہیں 

.. شادی میں تاخیر کا گناہ1 

جہیز کی وجہ سے شادیوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اولاد برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے ۔ ایسی صورت میں والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے ۔


عن أبي سعيد وابن عباس رضی الله عنهما قالا: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : من ولد له ولد فليخي اسمه وأدبه، فإذا بلغ قليز وجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إنما فإنما إثمه على أبيه شعب الایمان (للبیہقی، رقم الحدیث:8299) 


ترجمہ: حضرت ابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پید اہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا نام اچھار کھے ، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے۔ اگر باپ نے (معقول شرعی عذر کے نہ پائے جانے کے باوجود ) شادی نہیں کی اور اولاد نے گناہ ( زنا یا بد کاری و غیر ہ کر لیا تو (شرعا باپ اس جرم میں برابر کا شریک سمجھا جاۓ گا۔


عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يقول: في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنة فلم يزوجها فأصابت إنما فإثم ذلك عليه

(شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث:8303) 


ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تورات میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہو جاۓ اور اس کا والد ( معقول شرعی عذر کے نہ پاۓ جانے کے باوجود) اس کی شادی نہیں کر تا تو لڑکی سے ہونے والے گناہ میں وہ برابر کا شر یک ہو گا۔ ... 


2...زنا اور بدکاری:

جہیز کی وجہ سے شادیوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں زنا اور بدکاری کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ اگر ہم بحیثیت قوم جہیز سے چھٹکاراپالیں تو ز نا اور بد کاری کی شرح کم سے کم سطح تک آ جاۓ گی۔ 


عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض

(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1084) 


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ کے پاس کوئی شخص ( تمہاری بچیوں کے لیے) نکاح کا پیغام بھیجے اور آپ اس کی دینداری اور حسن اخلاق سے مطمئن ہو تو( بلا تاخیر ) اس کا پیغام نکاح قبول کر کے اپنی بچیوں کا نکاح اس سے کر دو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین پر بہت بڑا( جنسی گناہوں کا فساد برپا ہو جاۓ گا۔


3... گھروں سے بھاگ جانا:

جہیر کی وجہ سے شادیوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بچیاں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں۔ یہ سماجی ذلت بہت بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے ، بڑے بڑے گھرانوں کی بچیاں گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرا لیتی ہیں یا پھر اللہ تعالی معاف فرمائے بازار حسن اور قحبہ خانوں کی زینت بن جاتی ہیں۔


4... بھاری قرضوں کا بوجھ:

جہیز کو جمع کرنے کے لیے کبھی بلا سود قرض لیا جا تا ہے اور اتنی مقدار میں لے لیا جاتا جسے بعد میں ادا کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔ بعد میں قرض خواہ سے جھوٹ پر جھوٹ بولا جاتا ہے جو کہ مستقل گناہ ہے۔ جو شخص قرض لے کر واپس نہیں کر تا اس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے ۔ 


عن محمد بن عبد الله بن بخش رضي الله عنهما قال: كنا جلوسا

بفناء المسجد حيث توضع الجنائز ورسول الله صلى الله عليہ وسلم جايش بين ظهريتا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم بقرة قبل السماء فنظر ثم طأطأ بصرة ووضع يده على جبهته، ثم قال: سبحان الله سبحان الله ماذا نزل من التشديد قال: فسكتنا يؤمنا وليلتنا فلم ترها خيرا حتى أصبحنا قال محمد: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما التشديد الذي نزل قال: في الدين والذي نفس محمد بيدولو أن رجلا قتل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل في سبيل الله ثم عاش وعلیہ دین ما دخل الجنة حتى يقضى دينه 

(مسند احمد در قم الحدیث: 22493) 


ترجمہ: حضرت محمد بن عبد الله بن جحش رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ مسجد نبوی کے صحن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس جگہ بیٹھے ہوۓ تھے ، جہاں جنازے رکھے جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک اپنی نظر مبارک اوپر کی طرف اٹھائی اور مجھکا لی۔ اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوۓ فرمایا: سبحان اللہ سبحان اللہ ! کیسے کیسے سخت عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ ( راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن اور ایک رات اس معاملے کے بارے میں ( سجے رہے اور خاموش رہے مگر پھر ہم نے خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نہ دیکھا (یعنی کوئی عذاب نازل نہ ہوا)


دوسرے دن جب صبح ہوئی تو راوی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا کہ کیسے عذاب نازل ہونے کے بارے میں آپ فرمارہے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرض کے سلسلے میں( لینی اس حوالے سے سخت احکام نازل ہو رہے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص راہ خدا میں شہید کر دیا جاۓ اس کے بعد زندہ کیا جاۓ اور پھر شہید کر دیا جاۓ۔ پھر زندہ کیا جاۓ پھر شہید کر دیا جائے اور پھر زندہ ہو جائے اور اس کے او پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو پاۓ گا تاوقتیکہ اپنے قرض کو ادانہ کرے ( یا اس کی طرف سے ادانہ کر دیا جاۓ )


5... سودی قرضوں کا بوجھ:

جہیز کو جمع کرنے کے لیے کبھی سود پر قرض لیا جاتا ہے۔ سود ایسی چیز ہے جو اللہ سے کھلم کھلا جنگ اور اپنی ماں سے زنا کرنے سے بڑا گناہ ہے ۔ 


فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

( سورۃ البقرہ رقم 17 : 279) 


ترجمہ: پھر اگر تم نے ایسانہ کیا( یعنی سودی معاملات کو نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کر لو ( سودی معاملات کو یکسر مچھوڑ دو ) تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے وہ تم لے لو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرونہ تم پر کوئی اور ظلم کرے۔ 


عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الرباشبعون حوبا أيسرها أن ينكح الرجل أمه

( سنن ابن ماجہ ، رقم الحدیث:2274) 


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود کے اندر ستر قسم کے گناہ پاۓ جاتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم درجے کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔


6... گھریلو ناچاقیاں:


اکثر اوقات تو اسی جہیز کی وجہ سے گھریلو ناچاقیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں ۔ والدین اپنی بیٹی کو جہیز میں جو چیز میں دیتے ہیں ان چیزوں کی وجہ سے بیٹی کو شوہر ، ساس، نند ، بھابھی وغیرہ کے طعنے سہنے پڑتے ہیں کہ تمہاری جہیز میں لائی ہوئی چیز اچھی نہیں ہے ۔ فلاں چیز معیاری نہیں ہے ۔ فلاں چیز پرانے زمانے کی ہے ، فلاں چیز کا ڈیزائن اچھا نہیں وغیرہ وغیرہ۔


اپنی بچیوں کو طعنوں سے بچانے کا مہذب طریقہ:

اپنی بچیوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ بیٹی تم نکاح کے بعد بھی میری بیٹی ہو تجھے جو چیز چاہیے مجھے بتانا میں ان شاء اللہ تمہیں دوں گا۔ جب بچی چلی جاۓ اس سے پوچھیں کہ بیٹی! تمہیں کیا ضرورت ہے ؟ مثلاً وہ کہے کہ فریج ضرورت ہے اسے فریج کے پیسے دو اور ساتھ میں یہ بھی سمجھا دو کہ بیٹی ! یہ فریج کے پیسے ہیں اپنے شوہر کو ساتھ لے جاؤ اور دونوں مشورہ کر کے جو پسند آۓ خرید لو ۔ واشنگ مشین لینی ہے اسے واشنگ مشین کے پیسے دو اور سمجھا بھی دو کہ بیٹی! اپنی ساس / نند بھابھی کو ساتھ لے جاؤ اور مشورہ سے جو پسند آجائے وہ خرید لو۔ اب آپ کا بچی کے ساتھ محبت و تعاون والا تعلق اور بھی مضبوط رہے گا، اس کے گھر کی ضرورت کی چیز بھی آ جاۓ گی وہ جھگڑے سے بھی بچ جاۓ اور آپ مروجہ جہیز کے گناہ سے بچ جائیں۔


جہیز کی وجہ سے وراثت سے محروم نہ کریں:

بیٹی کو جائیداد میں جتنا اس کا شرعی طور پر حصہ بنتا ہے وہ ضرور دیں۔ عام طور پر بیٹیوں کو جہیز دے کر جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یعنی شرعاً ممنوع چیز دے کر اس کا شرعی حق دبا لیا جاتا ہے یہ طریقہ سراسر غلط ہے اور قابل ترک ہے۔ جہیز کے عنوان سے بھلے جتنا سامان بیٹی کو دیا جائے اس سے اس کا حق وراثت ختم نہیں ہو تا۔


اللہ تعالی ہمیں احکام شریعت پر عمل کی توفیق نصیب فرماۓ۔ 

آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ

Thursday 10 March 2022

March 10, 2022

منگنی کی شرعی حیثیت اور چند رسومات





بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ ۚ
(سورة البقرة، رقم الآية: 235)

ترجمہ: اور عورتوں کو اشارہ پیغام نکاح (منگنی) دینے یا اپنے دل میں ( ارادہ نکاح کو پوشید ور کھنے میں تم پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں۔

:منگنی کی شرعی حیثیت
اسلام میں منگنی کی شرعی حیثیت و عدہ نکاح کی ہے ۔ اور وعدہ کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جاۓ۔ ہاں البتہ اگر کوئی شرعی مجبوری ہو تو اس کو منگنی ختم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

فائدہ: شرعی مجبوری سے مراد یہ ہے کہ جہاں نکاح کر لینے میں عقائد کی خرابی یا سنت کی مخالفت لازم آرہی ہو مثلا لڑکے والے خود بد عقیدہ ہوں یا ان کے ہاں بد عقیدہ لوگوں کا آنا جانا کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہو جس سے اس لڑکی کے بد عقیدہ ہونے کا اندیشہ ہو یا لڑکے والے کے گھر کا ماحول دینداری والا نہ ہو ۔ یعنی اس کے گھر میں بدعات و رسومات موجود ہوں ، کھلم کھلا کبیرہ گناہ ہوتے ہوں ، غیر محروموں کا آنا جانا ہو اور پردے کا ماحول نہ ہو۔

:سیدہ سودہ بنت زمعہ سیدہ عائشہ صدیقہ ا کی منگنی
عن محمد بن عمرو، و رو، قال: حدثنا أبو سلمة، ويحيى، قالا: لها هلكت خديجة جاءت خولة بنت حكيم امرأة عثمان بن مظعون قالت: يارسول الله الا تزوج قال: من قالت: إن شئت بكرا، وإن شئت ثيبا قال: فمن البكر قالت: البته أحب خلق الله عز وجل إليك عائشة بنت أبي بكر قال: ومن الثيب قالت: سودة بنت زمعة أمنت بك واتبعتك على ما تقول قال: فاذقى فاذ گريهما على فدخلت بيت أبي بكر فقالت: يا أم رومان ماذا أدخل الله عز وجل عليكم من الخير والبركة قالت: وما ذاك قالت:أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم أخطب عليه عائشة، قالت: انتظرى أبا بكر حتى يأتي فجاء أبو بكر فقالت: يا أبا بكر ماذا أدخل الله عز وجل عليكم من الخير والبركة؛ قال: وما ذاك؟ قالت: أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم أخطب عليه عائشة قال: وقل تضلة له إلما هي ابنة أخيه فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له قال: از جعى إليه فقولي له: أنا أخوك وأنت أخي في الإسلام وابنتك تصلح لي فرجعت فذكرت ذلك له
( مسند احمد ،رقم الحدیث:25769)

ترجمہ: حضرت ابو سلمہ اور یحی بن عبد الرحمن بن حاطب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو ایک غمگسار رفیقہ حیات کی ضرورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس جگہ پیغام دینے کا خیال ہے ؟ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کسی کنواری سے نکاح فرمانا پسند کریں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں جو سب سے زیادہ محبوب ہے ابو بکر ، اس کی بیٹی عائشہ سے موجود ہے ان سے نکاح فرمالیں اور اگر کسی بیوہ سے نکاح فرمانا چاہیں تو سودہ بنت زمعہ موجود ہے جو آپ پر ایمان بھی لا چکی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں جگہ پیغام دے دیں۔(ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لے کر گئیں ، جو انہوں نے بصد سعادت قبول کیا اور اس کے بعد سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لے کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھی گئیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ محترمہ سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام نکاح دیا اور فرمایا ام رومان اللہ تعالی نے آپ کے گھرانے میں بہت خیر و برکت رکھی ہے، سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتظار کر لینا چاہیے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہیں سارا معاملہ بتایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے بھائی ہیں اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہ ان کی بھتیجی ہوئی۔ بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرے دینی بھائی ہیں لہذا نکاح جائز ہے۔ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا واپس تشریف لائیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی اطلاع کی۔ صدیقی گھرانے نے اس سعادت پر دل و جان سے لبیک کہا۔

:أم المومنین سیدہ حفصہ ؓ کی منگنی
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما بحيث أن عمر بن الخطاب حين تأتمت حفصة بنت عمر من خنيس بن حذافة الشهوي وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد شهد بدرا توفي بالمدينة قال عمر فلقيت عثمان بن عفان فعرضت عليه حفصة فقلت إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر قال سأنظر في أمرى فلبثت ليالي فقال قد بدا لي أن لا أتزوج يومي هذا قال غمر قلقيت أبا بكر فقلت إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر فصمت أبو بكر فلم يرجع إلى شيئا فكنت عليه أوجد متى على عثمان فلبثت ليالي ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر فقال لعلك وجدت على حين عرضت على خفضة فلم أرجع إليك قلت نعم قال فإنه لم يمتعني أن أرجع إليك فيما عرضت إلا أني قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها فلم أكن لأقوى بير رسول الله صلى الله عليه وسلم ولوتركها لقبلتها
(صحیح البخاری، رقم الحدیث:4005)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب (میری بیٹی ) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے شوہر خنیس بن حذافہ السمی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور انہی زخموں کی وجہ سے مدینہ منورہ میں آکر شہادت پائی جس کی وجہ سے میری بیٹی حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں ۔ تو میں نے اپنی بیٹی سے رشتے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کی کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح اپنی بیٹی حفصہ سے کر دوں؟ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سوچنے کے لیے کچھ دن کا وقت لے لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کچھ دن بعد دوبارہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اس بارے دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ سوچا ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات کی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی بات کو بغور سن تو لیا لیکن کوئی جواب دیے بغیر خاموش ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ طرز عمل میرے لیے عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ باعث تکلیف ہوا۔ میں نے کچھ دن تو قف کیا۔ اس کے بعد خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے لیے پیغام نکاح بھیجا اور میں نے اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ کچھ دن بعد میری ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: عمر شاید آپ کو میرے طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ آپ نے اپنی بیٹی حفصہ سے نکاح کے لیے مجھ سے بات کی تھی اس پر میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: بالکل تکلیف تو ہوئی ہے ۔ تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصل بات یہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ آپ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خود نکاح فرمانے کی بات کی تھی ۔ اور میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کروں ۔ اس لیے میں نے آپ کو جو اب نہیں دیا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح نہ فرماتے تو میں آپ کی بیٹی سے ضرور نکاح کر لیتا۔

فائدہ: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکی والے بھی لڑکے والوں کو پیغام نکاح دے سکتے ہیں یہ کوئی عار کی بات نہیں۔

:خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ کی منگنی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اور آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام نکاح بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام نکاح دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ہمراہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر بھیج دیا۔
(المعجم الكبير للطبرانی، رقم الحدیث:1020)

فائدہ: ہم نے نمونے کے طور پر چند مبارک مخنیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی ازواج مطہرات ، بنات ، اصحاب اور آل رضی اللہ عنہم اجمعین سب کے سب کی شادیاں سادگی اور بے تکلفی کا مظہر تھیں۔

:منگنی پر منگنی
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم: لا تخطب الرجل على خطبة أخيه
(سنن ابن ماجہ ، رقم الحدیث:1867)


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے ۔ یعنی اگر کسی لڑکے کی کسی لڑکی کے ہاں منگنی ہو چکی ہے تو اب یہ ان سے منگنی نہ کرے۔


:منگنی کے موقع پر انگو ٹھی کا تبادلہ

آج کل منگنی کے موقع پر ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنائی جاتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپس میں ہدیہ دینے اور لینے سے محبت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ اب ہدیہ کے بجاۓ رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ جس میں کئی گناہ پاۓ

جاتے ہیں۔ 

❶: منگیتر ایک دوسرے کو پہناتے ہیں جو کہ شرعا غیر محرم ہیں اور ایک دوسرے کو چھو بھی نہیں سکتے ۔


❷ : بعض لوگ منگنی کی انگوٹھی کو متبرک سمجھتے ہیں۔ 

❸: بعض لوگ انگوٹھیوں پر لڑکے اور لڑکی کا نام لکھوا لیتے ہیں اور اس کو باہمی محبت پر اثر اند از مانتے ہیں۔


❹: مردوں کو بھی سونے کی انگوٹھی پہنا دی جاتی ہے جس کا استعمال مرد پر حرام ہے۔

❺: بعض لوگوں کا جہالت کی وجہ سے یہ اعتقاد ہے کہ بغیر انگو ٹھی کے منگنی کو درست اور پائیدار نہیں ہوتی۔


:منگنی کے موقع پر پھولوں کی مالا ڈالنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو گلے میں پھولوں کی مالا ڈالتے ہیں۔ 


:منگنی پر فضول خرچی

منگنی کی حیثیت محض وعدۂ نکاح ہے اس میں فضول خرچی کرتے ہوئے مہمانوں کو دور دور سے بلاناء مستقل اور مہنگی تقریبات کرنا، قرض اٹھا کر اسے پورا کر نا وغیرہ ساری ایسی باتیں ہیں جس کی شریعت اسلامیہ میں ممانعت ہے ۔


:منگیتر اجنبی ہے

جب تک نکاح نہ ہو جائے اس وقت تک منگیتر آپس میں اجنبی رہتے ہیں۔ ان کے لیے شرعاً وہی احکام ہوتے ہیں جو اجنبیوں کےلیے ہوتے ہیں۔


:منگیتر سے پردہ

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑ کا اور لڑ کی بغیر پروہ کے آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لیے پردے والا حکم باقی نہیں ہے ۔ یہ بہت بڑی غلطی اور جہالت والی بات ہے۔


:منگیتر کے ساتھ گھومنا پھرنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکا اور لڑ کی اکٹھے گھومنے پھرنے جاتے ہیں ، اکٹھے سفر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے لیے ان کاموں کی شرعی طور پر گنجائش موجود ہے حالانکہ یہ بات کسی طور پر بھی درست نہیں بلکہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ منگنی کے باوجود بھی شرعی طور پر لڑکا اور لڑکی آپس میں اجنبی ہی رہتے ہیں۔


:منگیتر سے بلاضرورت باتیں کرنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی آپس میں بلاضر ورت بات چیت ، گپ شپ، میسجز ، موبائل کال اور ایک دوسرے کو ویڈیو کال کرتے ہیں ۔ ان کا آپس میں اس طرح بلاضرورت شدیدہ انتگو کر ناشر عاحرام ہے اور بہت سارے اخلاقی جرائم کا پیش خیمہ ہے۔


:منگیتر کے ہاں رہنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے عنوان سے منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی اکٹھے رہتے ہیں ۔ ان کا اس طرح اکٹھے رہنا ایسے ہی گناہ ہے جیسے دو غیر محرموں اور اجنبیوں کا اکٹھے رہنا گناہ ہے ۔ محض منگنی سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے لیے شرعا محرم نہیں بنتے ۔ اس لیے وہی حدود قیود ہوں گے جو اجنبیوں کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ افسوس کہ اس معاملے میں غفلت یالا علمی کی وجہ سے لڑکا اور لڑکی آپس میں جنسی تعلق قائم کر لیتے ہیں جو کہ سراسر خالص زنا ہے۔


:منگنی کے بعد نکاح میں جلدی کریں

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا لكن فنتة في الأرض وفساد عريض

(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1084) 


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ کے پاس کوئی شخص ( تمہاری بچیوں کے لیے )


نکاح کا پیغام بھیجے اور آپ اس کی دینداری اور حسن اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام نکاح قبول کر کے اپنی بچیوں کا نکاح اس سے کر دو۔ اور اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین پر بہت بڑا جنسی گناہوں کا فساد بر پا ہو جاۓ گا۔

:لمحہ فکریہ
منگنی فرض و واجب نہیں زیادہ سے زیادہ اس کی اجازت اور گنجائش ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں اس کا عملی نمونہ بھی پایا جاتا ہے۔ اگر اسی طرز اور سوچ و فکر کے ساتھ کی جائے تو اسے سنت کہنا بھی درست ہو گا ۔ لیکن ہمارے زمانے کی منگنیاں اور اس پر ہونے والی رسومات و خرافات جس کا اکثر حصہ غیر مسلموں کی مشابہت پر مبنی ہے اس طرح کی منگنی کی کسی طرح بھی شریعت اجازت نہیں دیتی۔

اسی موقع پر لڑکی والے کچھ لکھت پڑھت بھی کراتے ہیں کہ آپ ہماری بچی کو الگ مکان ، اتنے تولے سونا، زیورات ، ماہانہ سالانہ خرچ ، طلاق کی صورت میں اتنی اتنی رقم دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی غیر اخلاقی بات ہے ۔ اور مشاہد ہ بتلاتا ہے کہ اس وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ آپ پہلے سے ہی ایسے لڑکے کا انتخاب کر میں جو آپ کی بچی کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے۔
اللہ تعالی احکام شریعت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہم العالیہ


Wednesday 9 March 2022

March 09, 2022

نظریہ نکاح دینی پہلو اور فضائل

Zahirihaqeeqat.blogspot.com

 

بسم اللہ الرحمن الرحيم

اللہ تعالی کا احسان ہے کہ ہمیں انسان بنایا اور احسان عظیم یہ ہے کہ ہمیں مسلمان بنا کر نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ جانوروں کے بجائے انسانوں والے اور کافروں کے بجاۓ مسلمانوں والے کام کر یں۔

نکاح کا نظریہ:
انسان ہوں یا جانور اللہ تعالی نے سب میں افزائش نسل کا عمومی نظام میں بنایا ہے نر اور مادہ کے ملاپ سے ہوتی ہے ۔ افزائش نسل جانوروں کی بھی ہو رہی ہے اور انسانوں کی بھی ۔ جانوروں کے ہاں نکاح نہیں اور انسانوں کے ہاں اس کے لیے نکاح کا نظام موجود ہے ۔ پھر انسانوں میں دو طبقے ہیں ایک مسلمان اور دوسرا غیر مسلم ۔ چونکہ ان کے نظریات میں فرق ہے اس لیے ان کے طرز معاشرت میں بھی فرق ہے۔

نظر یہ نکاح:
غیر مسلم اقوام کے ہاں نکاح کی ایک دنیاوی رسم سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں اور اس کا مقصد عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یعنی اس میں دینی عبادت کا پہلو موجود نہیں ۔

ملت اسلامیہ کے ہاں نظر یہ نکاح:
ملت اسلامیہ کے ہاں نکاح کی حیثیت دیتی ہے یہ ایک مستقل عبادت ہے  اس کا مقصد معاشرے سے برائی اور گناہوں کو ختم کرنا ہے ۔ اللہ کی رضا کو حاصل کرتا ہے اور مقصد اولاد کا حصول یعنی ابقائے نسل ہے۔

عبادت کی تعریف اور مقصد :

عبادت کہتے ہیں حکم خدا کو طریقہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پورا کرنا ۔ یعنی اللہ تعالی کے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و تشریحات کے مطابق بجالانا اور عبادت کا اصل مقصد اللہ تعالی کی رضا اور
خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اسلام میں نکاح چونکہ ایک مستقل عبادت ہے اس لیے شریعت نے اس کے اس پہلو کو جگہ جگہ ملحوظ رکھا ہے ۔

نکاح کرنے کی جگہ میں عبادت کا پہلو:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اور عبادت کی ادائیگی کا سب سے بہترین مقام مسجد ہے ۔ اس لیے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ نکاح مسجد میں کریں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ
(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1089)
ترجمہ: نکاح مساجد میں کرو۔

۔ مسلمانوں کے ہاں نکاح عبادت ہے تو اس کی ادائیگی کے لیے مسجد کی مقدس اور بابرکت جگہ مقرر کی گئی ہے تا کہ اس مقدس جگہ کی برکات انسان کی از دواجی زندگی میں سرایت کر جائیں اور اس کی زندگی بے برکتی اور نحوست سے محفوظ رہے۔
اگر کوئی مسلمان اپنے نکاح کی تقریب مسجد میں نہیں کر تا تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے ۔

نکاح کے خطبے میں عبادت کا پہلو:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے اس کے انعقاد کے وقت جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس میں قرآنی آیات ، احادیث مہار کہ ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ و سلام اور دعا یہ تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اپنے نکاح کی تقریب میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتاتو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔ 

نکاح کی تقریب میں بے پردگی کی ممانعت:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اور سب سے بہترین عبادت وہی ہوتی ہے جس میں مرد و خواتین کا ( غیر شرعی) مخلوط اجتماع نہ ہو بلکہ مرد الگ ہوں اور خواتین الگ ہوں۔ اگر یہ (مر دوعورت کا مخلوط اجتماع) کسی کے نکاح کی تقریب میں ہو تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح کی تقریب میں آلات موسیقی کی ممانعت:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے اس میں ڈھول تاشے، طبلے سرنگیاں، گانے باجے اور ڈانس و مجرے نہیں ہوتے۔ اگر یہ چیز میں بھی کسی کے نکاح کی تقریب میں ہوں تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح میں حرام کھانے پینے کی ممانعت:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے اس میں پاکیزہ چیز میں استعمال ہوتی ہیں یہی وجہ ہے لہذا اس میں کھانے کی چیز میں حلال ہوتی ہیں پینے کی چیز میں حلال ہوتی ہیں ۔ اگر کسی مسلمان کے نکاح کی تقریب میں کھانے اور پینے کی چیز میں حلال نہ ہوں بلکہ حرام ہوں جیسے شراب وغیرہ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح میں باہمی احترام :
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے عبادت میں اپنا خیال بھی رکھتے ہیں اور دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں کہ میری عبادت کی وجہ سے دوسرے کی راحت میں خلل نہ آۓ۔ اگر کسی مسلمان کے نکاح کی تقریب میں اپنی خوشی کی خاطر دوسرے کی راحت اور اس کے آرام کو خیال نہیں رکھا جاتا لیعنی تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح... رسولوں کی مبارک زندگی کا مبارک طریقہ :
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ الْحَيَاءُ وَالتَّعَطُّرُ وَالسِّوَاكُ وَالنِّكَاحُ ‏"
( جامع الترمذی، رقم الحدیث:1080)

ترجمہ: حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار باتیں رسولوں کی مبارک زندگی کا مبارک طریقہ ہیں: حیا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔
فائدہ: اللہ رب العزت قرآن کریم (سورۃ الرعد آیت نمبر 38) میں فرماتے ہیں،
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ
” کہ اے میرے محبوب پیغمبر! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں اور ہم نے انہیں بیویاں بھی عطا کیں اور اولاد بھی عطا کی۔

نوجوانوں کو نبی کریم ملی کا خصوصی خطاب:
خرَجنا معَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، ونَحنُ شبابٌ لا نَقدرُ على شَيءٍ ، قالَ : يا مَعشرَ الشَّبابِ ، عليكم بالباءةِ ، فإنَّهُ أغضُّ للبَصَرِ ، وأحصَنُ للفرَجِ ، ومن لم يستَطِعْ فعلَيهِ بالصَّومِ فإنَّهُ لَهُ وِجاءٌ
(جامع الترمذی، رقم الحدیث: 1081)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے ، ہم جوان تھے لیکن ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت ( بیوی بچوں کے اخراجات اٹھانے کی ) ہو اسے نکاح ضرور کر لینا چاہیے کیونکہ نکاح کرنا بد نظری ( جیسے فتیح گناہ ) سے حفاظت کا ذریعہ اور ( زنا و بد فعلی جیسے فتیح گناہوں سے ) شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ اور جو شخص نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو (گناہوں سے بچنے کے لیے اسے روزے رکھنے چاہئیں۔
کیونکہ روز ور کھنا( نفسانی /جنسی خواہشات) کا توڑ ہے ۔

بچیوں کے سرپرستوں کو ہدایت نبوی:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
إذا أتاكُم من تَرضونَ خُلقهُ ودينهُ فزوّجوهُ ، إلا تفعلوا تكنْ فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ
(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1084)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ کے پاس کوئی شخص (تمہاری بچیوں کے لیے) نکاح کا پیغام بھیجے اور آپ اس کی دینداری اور حسن اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام نکاح قبول کر کے اپنی بچیوں کا نکاح اس سے کر دو۔ اور اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین پر بہت بڑا جنسی گناہوں کا فساد برپا ہو جاۓ گا۔

اللہ تعالی احکام شریعت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

والسلام : مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہم العالیہ

Tuesday 8 March 2022

March 08, 2022

ایک اہم مسئلہ اور حضرت مفتی محمد زرولی خان صاحب کے لیے دعا


حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ [ترمذی، ابو داؤد]

ترجمہ: اپنی  اولاد (بچوں) کو نماز کا حکم دینا چاہیے جبکہ وہ سات سال کی عمر کے ہوں،

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس  سلسلے میں ہمارے اس دور کے اندر بہت زیادہ غفلت و لاپرواہی دیکھنے میں نظر آتی ہے.
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر گھر اور خاندان میں کسی ایک شخص کو سربراہی عطا فرمائے ہوتی ہے اس کو بڑا بنایا ہوتا ہے،

حدیث شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ [حوالۂ بالا]
ترجمہ: تم میں سے ہر آدمی کے ذمے جو ذمہ داری لگائی گئی ہے اس بارے میں سوال ہوگا،
وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ [حوالۂ بالا] 
ترجمہ: آدمی اپنے گھر میں سب سے زیادہ بڑا اور مسئول ہوتا ہے،
وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ [حوالۂ بالا]
ترجمہ: اور اس سے اس کے رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو ابتدائی احکام عطاء فرمائے اس میں حکم تھا



ترجمہ : کہ آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیئے
یہ تمام دلائل بیان کے کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گھر (خاندان) میں جتنے بھی بڑے، چھوٹے، لڑکے لڑکیاں ہوں ان سب کے تمام جیسے دوسرے اعمال پر نظر رکھتے ہین اس طرح ہمیں انکی نمازوں میں بھی نظر رکھنی چاہیے  آیا وہ رہے ہیں یا نہیں، اور ان میں سے جو مرد ہیں ان کو مسجد میں جانے کی ترغیب دینا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے...

(دعا)....
حضرت والد صاحب کے رفع درجات ے لیے دعا کریں، اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے...

حضرت مولانا محمد انور شاہ مدظلہ
ؒصاحبزادہ مفتی محمد زرولی خان صاحب 
#MuftiZarWali #MMZarWaliKhan #MaulanaAnwarShah


Saturday 5 March 2022

March 05, 2022

عورتیں تین قسم کی ہوتی ہیں




حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:
عورتیں تین قسم کی ہوتی ہیں۔

➊ ایک عورت تو وہ ہے جو پاک دامن ، مسلمان ، نرم طبیعت ، محبت کرنے والی ، زیادہ بچے دینے والی ہو، اور زمانہ کے فیشن کے خلاف اپنے گھر والوں کی مدد کرتی ہو ( سادہ رہتی ہو ) اور گھر والوں کو چھوڑ کر زمانہ کے فیشن پر نہ چلتی ہو لیکن تمہیں ایسی عورتیں کم ملیں گی ۔

➋ دوسری وہ عورت ہے جو خاوند سے بہت مطالبہ کرتی ہو اور بچے جننے کے علاوہ اس کا اور کوئی کام نہیں۔

➌ تیسری وہ عورت ہے ۔ جو خاوند کے گلے کا طوق ہو اور جوں کی طرح چمٹی ہوئی ہو ( یعنی بداخلاق بھی ہو اور اس کا مہر بھی زیادہ ہو جس کی وجہ سے اس کا خاوند اسے چھوڑ نہ سکتا ہو ) ایسی عورت کو اللہ تعالی جس کی گردن میں چاہتے ہیں ڈال دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اس کی گردن سے اتار لیتے ہیں ۔ ( حیاۃ الصحابہ جلد ص۵۲)

ماخوذ از کتاب : (بکھرے موتی، ج 1، ص 46)