Daily Islamic Posts

Islam Is The Religion Of Peace

About Author

ABDUL BASIT PRINCE GABOL, Karachi, Pakistan

Breaking

Specially for you

Sunday, 13 March 2022

فضول خرچی اور جہیز کی شرعی حیثیت



بسم الله الرحمن الرحيم
اللہ تعالی کا حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ ( سنت خواہ قولی ہو یا فعلی یا تقریری دونوں کے مجموعے کا نام شریعت ہے اور شریعت پر عمل کرنے کا حکم ہے جبکہ شریعت کے علاوہ باقی جتنے جاہلانہ اور غیر اسلامی رسوم و رواج ہیں ان کو چھوڑنے کا حکم ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر مال کو خرچ کیا جا تا ہے اس بارے میں شریعت کی درج ذیل اصولی باتیں ملحوظ خاطر رکھی جائیں ۔

مال کے بارے چار اہم باتیں:
❶. مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرائع آمدن سے بچیں ، جیسا کہ فراڈ، دھو کہ ، سود، جھوٹ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقہ معاملات ہیں۔ یاد رکھیں مال تو نا جائز اور حرام ذرائع سے بھی مل جاتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی ناراضگی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں ، لڑائی جھگڑے ، بے چینی و بے سکونی ، ذہنی ڈپریشن اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے ، حرام کا لقمہ ایسا زہر ہے جس کی وجہ سے عبادت کی حلاوت کا احساس بھی نہیں ہو تا۔ حالات کی بہتری کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن حرام مال، حرام لباس اور حرام خوراک کی وجہ سے اللہ تعالی انہیں قبول نہیں فرماتے۔
❷. مال کے ساتھ جن حقوق اللہ کا تعلق ہے ان کو بر وقت ضرور پورا کر یں۔ صدقات واجہ جیسا کہ زکوۃ، عشر، قربانی ، صدقہ فطر وغیرہ ہیں اور صدقات نافلہ جیسے مسجد ، مدارسہ ، طلباء د مینبیہ ، اور غرباء مساکین و غیر ہ پر خرچ کرنا۔ یاد رکھیں کہ مال و دولت ملنے کے بعد اللہ تعالی کے حقوق ادانہ کرنا اور جن عبادات کا تعلق مال کے ساتھ ہے مال کے کم ہونے کے خوف کی وجہ سے ان عبادات کو ادانہ کرنا دنیا و آخرت کی بربادی ہے ، مال ختم نہ بھی ہو لیکن انسان کی زندگی ایک دن ضرور ختم ہو جائے گی اور یہی مال دوسروں کی ملکیت میں چلا جائے گا۔ 3... مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائیگی بروقت کر میں۔ اہل و عیال کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اپنی حیثیت کے مطابق ان کے اخراجات کو پور 5/16 ہے۔ والدین ، بہن بھائی ، قریبی رشتہ دار ، ہمساۓ اور ضرورت مند طبقے پر اپنی مالی وسعت کے مطابق خرچ کرنا اسلام کی تعلیم ، اللہ کی خوشنودی اور رضا کا ذریعہ اور مال میں مزید فراخی اور برکت کے حصول کا باعث ہے ۔ اس لیے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اعتدال کے ساتھ مال کو کام میں لاتے رہیں۔ ... مال خرچ کرنے میں بھی حرج نہیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا مناسب نہیں۔ ہمیں نام و نمود اور شہرت کے لیے مال خرچ کرنے سے بچنا چاہیے شادی بیاہ پر فضول خرچی سے بچنا چاہیے ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی کا خیال کرنا چاہیے۔

میانہ روی سمجھ داری کی علامت:
عن أبي الدرداء رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم
قال: من فقه الرجل رفقة في معيشته
(مسند احمد ،حدیث نمبر 21695)
ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی کامل درجے کی سمجھ داری یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت میں
میانہ روی قائم کرے۔

ہر حال میں میانہ روی:
عن حذيفة رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أحسن القصد في الغنى وأحسن القصد في الفقر وأحسن القصد في العبادة
(مسند بزار حدیث نمبر 2946)

ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کی فراوانی کے وقت میانہ روی قائم کرنا، تنگدستی اور غربت کے وقت میانہ روی قائم کرنا اور عبادات میں میانہ روی قائم کرنا شریعت میں مقصود ہے اور پسند ید ہ بات ہے۔

مال کے خرچ کرنے کے بارے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ اسے احکام شریعت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ ہمارے ہاں مال کے خرچ کرنے کا ایک بہت بڑاموقع شادی بیاہ کا موقع ہو تا ہے ۔ اس موقع پر ”جہیر “ دیا جا تا ہے ۔



جہیز کی عرفی حیثیت:
عربی میں جھز تیاری کرنے کو کہتے ہیں اس سے تجہیز ہے۔
جھز المیت کا معنی ہو تا ہے تجہیز و تکفین یعنی میت کے کفن دفن کا انتظام کرنا، جھز العروس کا معنی ہو تا ہے دلہن کا سامان تیار کرنا۔
ہمارے عرف میں جہیز سے مراد دلہن کو دیے جانے والے سامان کی تیاری کرنا ہے ۔

جہیز کی شرعی حیثیت:
مروجہ جہیز جس کی حقیقت ناجائز مطالبہ ، شہرت و نمود و نمائش، فضول خرچی اور ایک رسم کی پابندی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ مذکورہ خرابیوں اور گناہوں کی وجہ سے شرعا ممنوع ہے ۔

❶ لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ :
جہیز کے شرعا ممنوع ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اس کالڑ کے والوں کی طرف سے ان کی دلی رضامندی کے بغیر مطالبہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں معیار کی فلاں فلاں چیز میں دی جائیں، جو لڑکی والوں پر ایک طرح کا معاشی بوجھ ہو تا ہے اور اس میں ان کی دلی رضامندی بالکل نہیں ہوتی اور دلی رضامندی کے بغیر کسی کے مال کولینا اور استعمال کرنا ایسا عمل ہے جو شرعا ممنوع ہے۔
عن أبي حرة الرقاشي رحمه الله عن عله رضي الله عنه أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال:لا تحل مال امرء مسلم إلا بطيب نفس منه. (السنن الکبری للبیہقی،رقم الحدیث:11877)

ترجمہ: حضرت ابوخرور قاشی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کامال اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا /استعمال کرنا حرام ہے۔

لڑکی والوں کی طرف سے نمودو نمائش کے طور پر دینا:
جہیز کے شرعا ممنوع ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اس میں لڑکی والے اسے ہدیہ تحفہ یا صلہ رحمی کے طور پر نہیں بلکہ ریاکاری اور محض نمود و نمائش کے لیے دیتے ہیں کہ فلاں نے اپنی بیٹی کو اتنا جہیز دیا میں اس سے بڑھ کر دے رہا ہوں۔ اور ریا کاری ایسا عمل ہے جو شرعا ممنوع ہے ۔

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُبْطِلُواْ صَدَقَٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ
(سورة البقرة،رقم الآية: 264)

ترجمہ : ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع نہ کر وجو اپنامال ریا کاری کے طور پر خرچ کر تا ہے ۔
عن محمود بن لبيد رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر قالوا: وما الشرك الأصغر يا رسول الله؟ قال: الرياء يقول الله عز وجل لهم يوم القيامة: إذا جزى الناس بأعمالهم الذهبوا إلى الذين كنتم ثراءون في الدنيا فانظروا هل تجدون عندهم جزاء
(مسند احمد ،رقم الحدیث:23630)

ترجمہ: حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ شرک اصغر ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول !شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی تو ریا کاری کرنے والے لوگوں سے اللہ تعالی فرمائیں گے کہ انہی لوگوں کے پاس جاؤ کہ دنیا میں جن کو دکھلانے کے لیے تم اعمال کیا کرتے تھے۔ اور دیکھو کہ تم ان سے کیا بدلہ پاتے ہو۔



❸ جہیز کے موقع پر فضول خرچی:
جہیز کے شرعاً ممنوع ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اس موقع پر فضول خرچی کی جاتی ہے بلاضرورت اور ضرورت سے کہیں زیادہ سامان اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اور فضول خرچی ایسا عمل ہے جو شر عاممنوع ہے ۔

إِنَّ ٱلْمُبَذِّرِينَ كَانُوٓاْ إِخْوَٰنَ ٱلشَّيَٰطِينِ ۖ وَكَانَ ٱلشَّيْطَٰنُ لِرَبِّهِۦ كَفُورًا. (سورۃ بنی اسرائیل در قم الآ :27)

ترجمہ: اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ فضول خرچی ( بلاضرورت یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ان کے مشابہ ہیں ۔ اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت ناشکر اہے ۔

فائدہ: فضول خرچی کر نا شیطان کے بھائیوں ( شیطانی او صاف رکھنے والوں ) کا کام ہے اور فضول خرچی کے نتیجے میں ناشکری در حقیقت شیطان کا کام ہے ۔ اس حقیقت کو ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جو لوگ فضول خرچی کرتے ہیں وہی لوگ در حقیقت اللہ تعالی کی ناشکری کرنے والے ہیں۔

❹ غیر شرعی رسم کی پابندی:
جہیز کے شر عاممنوع ہونے کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ اس میں ایک غیر مسلم بالخصوص ہندو قوم کی نقالی اور مشابہت ہے۔ اور غیر مسلم اقوام کی نقالی اور مشابہت ایسا عمل ہے جو شرعا ممنوع ہے ۔

عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تشبه بقوم فهو منهم .
( سنن ابی داؤد در قم الحدیث:4033)

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جس قوم کی مشابہت اختیار کر تا ہے وہ انہی میں سے ہے ۔

جہیز فاطمی اور مروجہ جہیز :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد خواجہ ابو طالب نے بچپن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ہے ، ہر موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ہے ، اگر چہ ایمان کی حالت میں دنیا سے نہیں گئے۔ جب خواجہ ابو طالب دنیا سے چلے گئے تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ مچوٹی عمر کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کفالت کی ہے چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں تھے تو ظاہر سی بات ہے کہ ان کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرانی تھی اگر اپنی بیٹی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہانہ بھی دیتے بلکہ کسی اور جگہ ان کا نکاح کر تے تب بھی بحیثیت سربراہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر کا ضروری سامان مہیا کرنا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو سامان حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیا ہے وہ در حقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مالی کفالت کی ہے ۔


فائدہ: آج اگر کسی شخص کی چار بیٹیاں ہوں اور وہ ایک کو جہیز دے باقیوں کو نہ دے تو اسے کوئی بھی عادل اور انصاف پسند نہیں کہتا.... 

بلکہ اس کے اس طرز عمل کی مذمت کر تا ہے ۔ ذرادلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کہ کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جس کی تعلیمات میں عدل و انصاف ترجیحی بنیادوں پر نظر آتا ہے کیا وہ اپنے عمل سے اس کی مخالفت کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ! اس لیے اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جو سامان حضرت فاطمہ کو دیا گیا وہ در حقیقت اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تھا۔ جس سے مروجہ جہیز کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو تا۔ اب ذیل میں جہیز کے چند نقصانات ذکر کیے جاتے ہیں 

.. شادی میں تاخیر کا گناہ1 

جہیز کی وجہ سے شادیوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اولاد برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے ۔ ایسی صورت میں والدین بھی اس جرم میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے ۔


عن أبي سعيد وابن عباس رضی الله عنهما قالا: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : من ولد له ولد فليخي اسمه وأدبه، فإذا بلغ قليز وجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إنما فإنما إثمه على أبيه شعب الایمان (للبیہقی، رقم الحدیث:8299) 


ترجمہ: حضرت ابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پید اہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا نام اچھار کھے ، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے۔ اگر باپ نے (معقول شرعی عذر کے نہ پائے جانے کے باوجود ) شادی نہیں کی اور اولاد نے گناہ ( زنا یا بد کاری و غیر ہ کر لیا تو (شرعا باپ اس جرم میں برابر کا شریک سمجھا جاۓ گا۔


عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم يقول: في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنة فلم يزوجها فأصابت إنما فإثم ذلك عليه

(شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث:8303) 


ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تورات میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ جس کی بیٹی بارہ سال کی ہو جاۓ اور اس کا والد ( معقول شرعی عذر کے نہ پاۓ جانے کے باوجود) اس کی شادی نہیں کر تا تو لڑکی سے ہونے والے گناہ میں وہ برابر کا شر یک ہو گا۔ ... 


2...زنا اور بدکاری:

جہیز کی وجہ سے شادیوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں زنا اور بدکاری کی شرح بڑھ جاتی ہے ۔ اگر ہم بحیثیت قوم جہیز سے چھٹکاراپالیں تو ز نا اور بد کاری کی شرح کم سے کم سطح تک آ جاۓ گی۔ 


عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض

(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1084) 


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ کے پاس کوئی شخص ( تمہاری بچیوں کے لیے) نکاح کا پیغام بھیجے اور آپ اس کی دینداری اور حسن اخلاق سے مطمئن ہو تو( بلا تاخیر ) اس کا پیغام نکاح قبول کر کے اپنی بچیوں کا نکاح اس سے کر دو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین پر بہت بڑا( جنسی گناہوں کا فساد برپا ہو جاۓ گا۔


3... گھروں سے بھاگ جانا:

جہیر کی وجہ سے شادیوں میں بہت تاخیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بچیاں گھروں سے بھاگ جاتی ہیں۔ یہ سماجی ذلت بہت بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے ، بڑے بڑے گھرانوں کی بچیاں گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرا لیتی ہیں یا پھر اللہ تعالی معاف فرمائے بازار حسن اور قحبہ خانوں کی زینت بن جاتی ہیں۔


4... بھاری قرضوں کا بوجھ:

جہیز کو جمع کرنے کے لیے کبھی بلا سود قرض لیا جا تا ہے اور اتنی مقدار میں لے لیا جاتا جسے بعد میں ادا کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔ بعد میں قرض خواہ سے جھوٹ پر جھوٹ بولا جاتا ہے جو کہ مستقل گناہ ہے۔ جو شخص قرض لے کر واپس نہیں کر تا اس کے بارے میں سخت وعید آئی ہے ۔ 


عن محمد بن عبد الله بن بخش رضي الله عنهما قال: كنا جلوسا

بفناء المسجد حيث توضع الجنائز ورسول الله صلى الله عليہ وسلم جايش بين ظهريتا، فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم بقرة قبل السماء فنظر ثم طأطأ بصرة ووضع يده على جبهته، ثم قال: سبحان الله سبحان الله ماذا نزل من التشديد قال: فسكتنا يؤمنا وليلتنا فلم ترها خيرا حتى أصبحنا قال محمد: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما التشديد الذي نزل قال: في الدين والذي نفس محمد بيدولو أن رجلا قتل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل في سبيل الله ثم عاش ثم قتل في سبيل الله ثم عاش وعلیہ دین ما دخل الجنة حتى يقضى دينه 

(مسند احمد در قم الحدیث: 22493) 


ترجمہ: حضرت محمد بن عبد الله بن جحش رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ مسجد نبوی کے صحن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس جگہ بیٹھے ہوۓ تھے ، جہاں جنازے رکھے جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک اپنی نظر مبارک اوپر کی طرف اٹھائی اور مجھکا لی۔ اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوۓ فرمایا: سبحان اللہ سبحان اللہ ! کیسے کیسے سخت عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ ( راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن اور ایک رات اس معاملے کے بارے میں ( سجے رہے اور خاموش رہے مگر پھر ہم نے خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نہ دیکھا (یعنی کوئی عذاب نازل نہ ہوا)


دوسرے دن جب صبح ہوئی تو راوی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا کہ کیسے عذاب نازل ہونے کے بارے میں آپ فرمارہے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرض کے سلسلے میں( لینی اس حوالے سے سخت احکام نازل ہو رہے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی شخص راہ خدا میں شہید کر دیا جاۓ اس کے بعد زندہ کیا جاۓ اور پھر شہید کر دیا جاۓ۔ پھر زندہ کیا جاۓ پھر شہید کر دیا جائے اور پھر زندہ ہو جائے اور اس کے او پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہو پاۓ گا تاوقتیکہ اپنے قرض کو ادانہ کرے ( یا اس کی طرف سے ادانہ کر دیا جاۓ )


5... سودی قرضوں کا بوجھ:

جہیز کو جمع کرنے کے لیے کبھی سود پر قرض لیا جاتا ہے۔ سود ایسی چیز ہے جو اللہ سے کھلم کھلا جنگ اور اپنی ماں سے زنا کرنے سے بڑا گناہ ہے ۔ 


فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍۢ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

( سورۃ البقرہ رقم 17 : 279) 


ترجمہ: پھر اگر تم نے ایسانہ کیا( یعنی سودی معاملات کو نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر تم توبہ کر لو ( سودی معاملات کو یکسر مچھوڑ دو ) تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے وہ تم لے لو۔ نہ تم کسی پر ظلم کرونہ تم پر کوئی اور ظلم کرے۔ 


عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الرباشبعون حوبا أيسرها أن ينكح الرجل أمه

( سنن ابن ماجہ ، رقم الحدیث:2274) 


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود کے اندر ستر قسم کے گناہ پاۓ جاتے ہیں اور ان میں سے سب سے کم درجے کا گناہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔


6... گھریلو ناچاقیاں:


اکثر اوقات تو اسی جہیز کی وجہ سے گھریلو ناچاقیاں اور جھگڑے پیدا ہوتے ہیں ۔ والدین اپنی بیٹی کو جہیز میں جو چیز میں دیتے ہیں ان چیزوں کی وجہ سے بیٹی کو شوہر ، ساس، نند ، بھابھی وغیرہ کے طعنے سہنے پڑتے ہیں کہ تمہاری جہیز میں لائی ہوئی چیز اچھی نہیں ہے ۔ فلاں چیز معیاری نہیں ہے ۔ فلاں چیز پرانے زمانے کی ہے ، فلاں چیز کا ڈیزائن اچھا نہیں وغیرہ وغیرہ۔


اپنی بچیوں کو طعنوں سے بچانے کا مہذب طریقہ:

اپنی بچیوں کو یہ بات سمجھانی چاہیے کہ بیٹی تم نکاح کے بعد بھی میری بیٹی ہو تجھے جو چیز چاہیے مجھے بتانا میں ان شاء اللہ تمہیں دوں گا۔ جب بچی چلی جاۓ اس سے پوچھیں کہ بیٹی! تمہیں کیا ضرورت ہے ؟ مثلاً وہ کہے کہ فریج ضرورت ہے اسے فریج کے پیسے دو اور ساتھ میں یہ بھی سمجھا دو کہ بیٹی ! یہ فریج کے پیسے ہیں اپنے شوہر کو ساتھ لے جاؤ اور دونوں مشورہ کر کے جو پسند آۓ خرید لو ۔ واشنگ مشین لینی ہے اسے واشنگ مشین کے پیسے دو اور سمجھا بھی دو کہ بیٹی! اپنی ساس / نند بھابھی کو ساتھ لے جاؤ اور مشورہ سے جو پسند آجائے وہ خرید لو۔ اب آپ کا بچی کے ساتھ محبت و تعاون والا تعلق اور بھی مضبوط رہے گا، اس کے گھر کی ضرورت کی چیز بھی آ جاۓ گی وہ جھگڑے سے بھی بچ جاۓ اور آپ مروجہ جہیز کے گناہ سے بچ جائیں۔


جہیز کی وجہ سے وراثت سے محروم نہ کریں:

بیٹی کو جائیداد میں جتنا اس کا شرعی طور پر حصہ بنتا ہے وہ ضرور دیں۔ عام طور پر بیٹیوں کو جہیز دے کر جائیداد سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ یعنی شرعاً ممنوع چیز دے کر اس کا شرعی حق دبا لیا جاتا ہے یہ طریقہ سراسر غلط ہے اور قابل ترک ہے۔ جہیز کے عنوان سے بھلے جتنا سامان بیٹی کو دیا جائے اس سے اس کا حق وراثت ختم نہیں ہو تا۔


اللہ تعالی ہمیں احکام شریعت پر عمل کی توفیق نصیب فرماۓ۔ 

آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ

No comments:

Post a Comment