Daily Islamic Posts

Islam Is The Religion Of Peace

About Author

ABDUL BASIT PRINCE GABOL, Karachi, Pakistan

Breaking

Specially for you

Wednesday 9 March 2022

نظریہ نکاح دینی پہلو اور فضائل

Zahirihaqeeqat.blogspot.com

 

بسم اللہ الرحمن الرحيم

اللہ تعالی کا احسان ہے کہ ہمیں انسان بنایا اور احسان عظیم یہ ہے کہ ہمیں مسلمان بنا کر نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ جانوروں کے بجائے انسانوں والے اور کافروں کے بجاۓ مسلمانوں والے کام کر یں۔

نکاح کا نظریہ:
انسان ہوں یا جانور اللہ تعالی نے سب میں افزائش نسل کا عمومی نظام میں بنایا ہے نر اور مادہ کے ملاپ سے ہوتی ہے ۔ افزائش نسل جانوروں کی بھی ہو رہی ہے اور انسانوں کی بھی ۔ جانوروں کے ہاں نکاح نہیں اور انسانوں کے ہاں اس کے لیے نکاح کا نظام موجود ہے ۔ پھر انسانوں میں دو طبقے ہیں ایک مسلمان اور دوسرا غیر مسلم ۔ چونکہ ان کے نظریات میں فرق ہے اس لیے ان کے طرز معاشرت میں بھی فرق ہے۔

نظر یہ نکاح:
غیر مسلم اقوام کے ہاں نکاح کی ایک دنیاوی رسم سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں اور اس کا مقصد عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یعنی اس میں دینی عبادت کا پہلو موجود نہیں ۔

ملت اسلامیہ کے ہاں نظر یہ نکاح:
ملت اسلامیہ کے ہاں نکاح کی حیثیت دیتی ہے یہ ایک مستقل عبادت ہے  اس کا مقصد معاشرے سے برائی اور گناہوں کو ختم کرنا ہے ۔ اللہ کی رضا کو حاصل کرتا ہے اور مقصد اولاد کا حصول یعنی ابقائے نسل ہے۔

عبادت کی تعریف اور مقصد :

عبادت کہتے ہیں حکم خدا کو طریقہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق پورا کرنا ۔ یعنی اللہ تعالی کے احکام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و تشریحات کے مطابق بجالانا اور عبادت کا اصل مقصد اللہ تعالی کی رضا اور
خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ اسلام میں نکاح چونکہ ایک مستقل عبادت ہے اس لیے شریعت نے اس کے اس پہلو کو جگہ جگہ ملحوظ رکھا ہے ۔

نکاح کرنے کی جگہ میں عبادت کا پہلو:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اور عبادت کی ادائیگی کا سب سے بہترین مقام مسجد ہے ۔ اس لیے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ نکاح مسجد میں کریں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ
(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1089)
ترجمہ: نکاح مساجد میں کرو۔

۔ مسلمانوں کے ہاں نکاح عبادت ہے تو اس کی ادائیگی کے لیے مسجد کی مقدس اور بابرکت جگہ مقرر کی گئی ہے تا کہ اس مقدس جگہ کی برکات انسان کی از دواجی زندگی میں سرایت کر جائیں اور اس کی زندگی بے برکتی اور نحوست سے محفوظ رہے۔
اگر کوئی مسلمان اپنے نکاح کی تقریب مسجد میں نہیں کر تا تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے ۔

نکاح کے خطبے میں عبادت کا پہلو:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے اس کے انعقاد کے وقت جو خطبہ پڑھا جاتا ہے اس میں قرآنی آیات ، احادیث مہار کہ ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ و سلام اور دعا یہ تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ اگر کوئی مسلمان اپنے نکاح کی تقریب میں ان چیزوں کو اہمیت نہیں دیتاتو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔ 

نکاح کی تقریب میں بے پردگی کی ممانعت:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اور سب سے بہترین عبادت وہی ہوتی ہے جس میں مرد و خواتین کا ( غیر شرعی) مخلوط اجتماع نہ ہو بلکہ مرد الگ ہوں اور خواتین الگ ہوں۔ اگر یہ (مر دوعورت کا مخلوط اجتماع) کسی کے نکاح کی تقریب میں ہو تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح کی تقریب میں آلات موسیقی کی ممانعت:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے اس میں ڈھول تاشے، طبلے سرنگیاں، گانے باجے اور ڈانس و مجرے نہیں ہوتے۔ اگر یہ چیز میں بھی کسی کے نکاح کی تقریب میں ہوں تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح میں حرام کھانے پینے کی ممانعت:
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے اس میں پاکیزہ چیز میں استعمال ہوتی ہیں یہی وجہ ہے لہذا اس میں کھانے کی چیز میں حلال ہوتی ہیں پینے کی چیز میں حلال ہوتی ہیں ۔ اگر کسی مسلمان کے نکاح کی تقریب میں کھانے اور پینے کی چیز میں حلال نہ ہوں بلکہ حرام ہوں جیسے شراب وغیرہ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح میں باہمی احترام :
نکاح ایک مستقل عبادت ہے محض رسم دنیا اور عیاشی نہیں اس لیے عبادت میں اپنا خیال بھی رکھتے ہیں اور دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں کہ میری عبادت کی وجہ سے دوسرے کی راحت میں خلل نہ آۓ۔ اگر کسی مسلمان کے نکاح کی تقریب میں اپنی خوشی کی خاطر دوسرے کی راحت اور اس کے آرام کو خیال نہیں رکھا جاتا لیعنی تو اس کا معنی یہ ہوا کہ وہ بھی غیر مسلموں کی طرح نکاح کو عبادت کے بجاۓ محض رسم دنیا اور عیاشی ہی سمجھتا ہے۔

نکاح... رسولوں کی مبارک زندگی کا مبارک طریقہ :
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ أَرْبَعٌ مِنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ الْحَيَاءُ وَالتَّعَطُّرُ وَالسِّوَاكُ وَالنِّكَاحُ ‏"
( جامع الترمذی، رقم الحدیث:1080)

ترجمہ: حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چار باتیں رسولوں کی مبارک زندگی کا مبارک طریقہ ہیں: حیا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔
فائدہ: اللہ رب العزت قرآن کریم (سورۃ الرعد آیت نمبر 38) میں فرماتے ہیں،
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ
” کہ اے میرے محبوب پیغمبر! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے ہیں اور ہم نے انہیں بیویاں بھی عطا کیں اور اولاد بھی عطا کی۔

نوجوانوں کو نبی کریم ملی کا خصوصی خطاب:
خرَجنا معَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، ونَحنُ شبابٌ لا نَقدرُ على شَيءٍ ، قالَ : يا مَعشرَ الشَّبابِ ، عليكم بالباءةِ ، فإنَّهُ أغضُّ للبَصَرِ ، وأحصَنُ للفرَجِ ، ومن لم يستَطِعْ فعلَيهِ بالصَّومِ فإنَّهُ لَهُ وِجاءٌ
(جامع الترمذی، رقم الحدیث: 1081)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھے ، ہم جوان تھے لیکن ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نوجوانو! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت ( بیوی بچوں کے اخراجات اٹھانے کی ) ہو اسے نکاح ضرور کر لینا چاہیے کیونکہ نکاح کرنا بد نظری ( جیسے فتیح گناہ ) سے حفاظت کا ذریعہ اور ( زنا و بد فعلی جیسے فتیح گناہوں سے ) شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔ اور جو شخص نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو (گناہوں سے بچنے کے لیے اسے روزے رکھنے چاہئیں۔
کیونکہ روز ور کھنا( نفسانی /جنسی خواہشات) کا توڑ ہے ۔

بچیوں کے سرپرستوں کو ہدایت نبوی:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
إذا أتاكُم من تَرضونَ خُلقهُ ودينهُ فزوّجوهُ ، إلا تفعلوا تكنْ فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ
(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1084)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ کے پاس کوئی شخص (تمہاری بچیوں کے لیے) نکاح کا پیغام بھیجے اور آپ اس کی دینداری اور حسن اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام نکاح قبول کر کے اپنی بچیوں کا نکاح اس سے کر دو۔ اور اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین پر بہت بڑا جنسی گناہوں کا فساد برپا ہو جاۓ گا۔

اللہ تعالی احکام شریعت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

والسلام : مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہم العالیہ

No comments:

Post a Comment