Daily Islamic Posts

Islam Is The Religion Of Peace

About Author

ABDUL BASIT PRINCE GABOL, Karachi, Pakistan

Breaking

Specially for you

Monday, 14 March 2022

بیٹی کا مقام و مرتبہ



بسم اللہ الرحمن الرحيم

اللہ تعالی ہماری پوری قوم پر رحم فرماۓ ، آج ایک خبر نے ہلا کر رکھ دیا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ، ہاتھ کانپ رہے اور دل لرز رہا ہے۔ پاکستان کے شہر میانوالی میں ایک سفاک والد نے اپنی سات دن کی پھول سی بچی کو پانچ گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

بیٹی... دور قدیم و جدید کی جہالتوں کی زد میں:

دور قدیم کے جہلاء بچیوں کو زمیں میں زندہ دفن کر دیتے تھے اور دور حاضر کے جہلاء اس کو ماں کے پیٹ میں ہی اس کو ختم کر ادیتے ہیں، بیٹیوں کی وجہ سے اسقاط حمل کے جرم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، بچی کی ولادت پر اسے اور اس کی ماں کو زندہ جلا دیتا ہے ، بیٹی جیسے معصوم رشتے کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتا ہے کبھی یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش عورت کا جرم قرار دیتا ہے۔ افسوس صد افسوس! مسلم معاشرے میں مشرکانہ اور جاہلانہ ذہنیت رواج پانے لگی ہے کہ بچیوں کو اپنے لیے باعث عار سمجھا جانے لگا ہے۔

:بیٹی کے بارے اہم اسلامی احکامات
بیٹی اللہ کا انمول تحفہ ہے ، اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ بچی کی پیدائش کو منحوس نہ سمجھا جائے بلکہ اس پر شکر ادا کرتے خوش ہونا چاہیے ، اس کا اچھا اسلامی نام رکھا جاۓ ، اس کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جاۓ ، عدہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے ، گھر یلو کام کاج کا خوگر بنایا جاۓ ، نسبت اچھی قائم کی جاۓ ، نکاح جلدی کیا جاۓ ، عزت و احترام اور پیار و محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رکھا جاۓ اس کی
ضرورتوں کو جہاں تک ممکن ہو پورا کیا جاۓ ۔



:بیٹی اللہ کی عطا ہے
آءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَآءُ إِنَٰثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَآءُ ٱلذُّكُورَ
أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَٰثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَآءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُۥ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

لله ملك السموت و الأرض يخلق ما يشاء يهب لمن يشاء إناثا ؤ يهب لمن يشاء الذكور - أو يزوجهم ذكرانا و

إناثا ويجعل من يشاء عقيما" إنه عليم قدير -
(سورۃ الشوری ،رقم الآیات:50،49)

ترجمہ: صرف اللہ ہی زمینوں اور آسانوں کا مالک ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کر تا ہے ، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کر تا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے۔ وہ چاہے تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے۔ بے شک وہ
ذات علم والی ، قدرت والی ہے۔

بیٹی کو منحوس سمجھنا سراسر جہالت ہے:
اولاد کے تذکرے میں رب تعالی نے بیٹیوں کا ذکر پہلے فرمایا۔ کیوں ؟
اس لیے کہ اس وقت کے جہلاء بیٹی کو منحوس سمجھتے تھے۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِٱلْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُۥ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
و إذا بشر أحدهم بالأنثى ظل وجهه مسودا وهو كظيم يتوارى من القوم من سوء ما بشر به أيمسكه على هون أم يدشة في التراب" الا ساء ما يحكمون -
(سورۃ النحل، رقم الآیات:،59،58)

ترجمہ: جب ان کو بیٹی خوشخبری دی جاتی ہے تو ان کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور ان کا دل غم سے بھر جاتا ہے۔ اسے اپنے لیے برا( باعث شرمندگی ) سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھر تا ہے اور دل ہی دل میں یہ سوچتا ہے کہ اس کو ذلت برداشت کر کے
اپنے پاس رہنے دوں یا اسے زمین میں گاڑھ دوں ۔ ان لوگوں نے کتنی بری باتیں از خود ہی بنارکھی ہیں۔

:جہلاۓ عرب کارواج
عرب کے بدو، گنوار اور اجڈ جو بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کو زمین کی تاریکیوں کے حوالے کر دیتے تھے ۔ جہلاۓ عرب کی فرسودہ سوچ کی منظر کشی کرتے ہوۓ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
وقال ابن عباس: كانت المرأة في الجاهلية إذا عملت حفرت حفرة، وتمخضت على رأسها، فإن ولدت جارية رمت بها في الحفرة، وردت التراب عليها، وإن ولدت غلاما حبسته
تفسیر القرطبی،
( تحت سورۃ التکویر)

ترجمہ: جب عورت کے ہاں زچگی کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھود کر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھر اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اس پر مٹی ڈال دی جاتی اور اگر لڑ کا ہو تا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جا تا۔

:بیٹی کو دفن کرنے کا دردناک واقعہ 
دربار نبوت لگا ہے، عرب کا ایک دیہاتی زار و قطار آنسؤوں کی برسات میں بھیگ چکا ہے، روتے روتے ہچکی بندھی ہوئی ہے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ما اجد حلاوۃ الاسلام منذ اسلمت ۔ جب سے اسلام لایا ہوں اسلام کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر پا رہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی میں گھر سے کہیں دور سفر پر تھا جب گھر واپس لوٹا تو وہاں وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل رہی تھی اس کی تو تلی زبان اور معصومانہ شرارتیں... یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے گھر والی کو کہا کہ اس کو تیار کر ! اس نے اسے خوبصورت لباس پہنایا میں اس کو ساتھ لے کر دور ایک جنگل میں چلا گیا۔ گرمی اور لو.... وادی عرب کے تپتے صحرا نے ہمارے قدموں تک کو جھلسا کر رکھ دیا جب میں پسینے میں شرابور ہو جاتا تو میری بیٹی ننھے منے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے سے دوپٹے سے میر اپسینہ پونچھتی۔ یارسول اللہ ! یار سول اللہ ! میں نے ایک جگہ گڑھا کھودا، کھدائی کرتے وقت وہ بار بار اس گڑھے کی طرف دیکھتی اور میری طرف بھی۔ وہ مجھ سے سوال کرتی تھی: ابو! یہ کس لیے گڑھا کھو در ہے ہو ؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر تیار کر لیا اور اس کو اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو وہ چلائی اس نے مجھے دہائی دی وہ ابو ابو کر تی رہی۔ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتی رہی کہ ابو! مجھے مت دفن کر و ابو! مجھے معاف کر دو۔ ابو ا مجھے چھوڑ دو۔ ابو! مجھے ڈر لگتا ہے ۔ ابو ابوا میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی۔ ابو! کبھی بھی واپس نہیں لوٹوں گی۔ ابو ! میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں رہوں گی۔ ابو! میں اکیلی بالکل اکیلی رہ لوں گی ۔ ابو ابو ابو... یہاں تک کہ میں نے اس کے سر پر بھی مٹی ڈال دی۔ آخر وقت تک وہ چلاتی رہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا پتھر دل موم نہ ہوا اور میں اس کو وہیں جنگل میں پیوند خاک کر کے گھر لوٹ آیا۔ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے الفاظ میری کانوں کی ساعتوں سے ٹکرارہے ہیں اس کی معصوم بھولی صورت اور دلر با ادائیں میرے دل پر نقش ہو گئی ہیں۔



یا رسول اللہ کلما ذكرت قولها لم ينفعنى شئی. جب کبھی اس کی باتیں یاد کر تاہوں تو غم کی وجہ سے مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ یارسول اللہ میرا کیا بنے گا ؟ ادھر عرب کا دیہاتی رو رہا تھا اور ادھر فخر دو عالم رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں میں آنسو کے امڈ آۓ موتیوں کی اس لڑی میں محبت و شفقت کے انمول خزینے مچھلکنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماكان في الجاهلية فقد هدمه الاسلام ۔ آپ نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے قبول اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لیے مٹاڈالا۔

(التفسير الكبير ، سورة النحل) 


:بیٹی کی پیدائش پر ایک خاتون کے اشعار 

ام حمزہ عرب کی ایک سمجھ دار اور شاعرانہ مزاج کے حامل عورت تھی ، اس کو بھی یکے بعد دیگرے بیٹیاں پید اہوئیں تو اس کے خاوند ابو حمزہ نے اس وجہ سے گھر آنا چھوڑ دیا اس پر اس نے برجستہ اشعار کہے:





ترجمہ: ابو حمزہ کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتا وہ اس لیے ناراض ہے کہ ہم بیٹوں کو جنم نہیں دیتیں اللہ کی قسم یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہماری مثال تو کاشت کار کے لیے زمین جیسی ہے سو جو بویا جاۓ گاوہی کاٹا جاۓ گا۔


بیٹی... جہنم سے بچانے کے لیے ڈھال:

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: دَخَلَت عَلَيَّ امرأَة ومعَهَا ابنَتَان لَهَا، تَسْأَل فَلَم تَجِد عِندِي شَيئًا غَير تَمرَة وَاحِدَة، فَأَعْطَيتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمتْهَا بَينَ ابنَتَيهَا وَلَم تَأكُل مِنهَا، ثُمَّ قَامَت فَخَرَجَت، فَدَخَل النبي -صلى الله عليه وسلم- علينا، فَأَخْبَرتُه فقال: «مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هذه البنَاتِ بِشَيءٍ فأَحْسَن إِلَيهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِن النَّار». (جامع الترمذی، رقم الحدیث:1913) 


ترجمہ: ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں قیامت کے دن جہنم سے ڈھال بن جائیں گی۔


بیٹی سے محبت پر جنت:

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: جَاءَتنِي مِسْكِينَة تَحمِل ابنَتَين لها، فَأَطْعَمْتُها ثَلاثَ تَمَرَات، فَأَعْطَت كُلَّ وَاحِدَة مِنْهُما تَمْرَة وَرَفَعت إِلَى فِيهَا تَمْرَة لِتَأكُلَها، فَاسْتَطْعَمَتْها ابْنَتَاهَا، فَشَقَّت التَّمْرَة التي كانت تريد أن تَأْكُلَها بينهما، فَأَعْجَبَنِي شَأْنُهَا، فَذَكَرت الذي صَنَعَتْ لرسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال: «إِنَّ الله قَدْ أَوجَبَ لَهَا بِهَا الجَنَّة، أَو أَعْتَقَهَا بِهَا مِنَ النَّار».

(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:6787) 


ترجمہ: ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھاۓ ہوۓ میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجور میں اسے کھانے کے لئے دیں اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تا کہ اسے کھاۓ لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیے لیے مانگ لی۔ تو اس نے اس کھجور کے ، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں بیٹوں کو دے دیے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کر دی یا( فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما


دیا ہے۔


بیٹی سے حسن سلوک پر جنت:

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كانت له أنقى فلم ييدها ولم يهنها ولم يؤثر ولده عليها - قال يعنى الذكور - أدخله الله الجنة

(سنن ابی داؤ دور قم الحدیث:5148) 


ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی بچی پیدا ہو وہ نہ تو اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ برا سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح

دے تو اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔ 


تین بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت:

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عال ثلاث بنات قاذبين وزوجهن وأحسن إليهن قلة الجنة

(سنن ابی داؤ دور قم الحدیث:5147) 


ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی ، انہیں ( اخلاقی و معاشرتی ) ادب سکھلایا، ان کی (انچی جگہ شادی کی اور ( بعد میں) ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔


دو بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم : من عال جاريتين حتّى تبلغا جاء يوم القيامة أنا وهو وضم أصابعه.

(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:6788) 


ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں. پھر ان کا اچھے گھرانے میں نکاح کر دیا تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہو گا جیسے یہ انگلیاں۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔


ایک بیٹی کی اچھی پرورش پر جنت:

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كن له ثلاث بنات فعالهن واواهن وكفهن وجبت له الجنة قلنا: وينتين؛ قال: وينتين، قلنا: وواحدة قال: وواحدة النجم الاوسط 

(للطبرانی،رقم الحدیث :6199) 


ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کی پرورش کرے ، انہیں رہنے کی جگہ دی ، ان کی ضروریات کو پورا کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بیٹیوں کے متعلق سوال کیا کہ ان کی وجہ سے بھی جنت ملے گی تو آپ نے فرمایا کہ ہاں دو بیٹیوں کی وجہ سے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بیٹی سے متعلق سوال کیا کہ اس کی وجہ سے بھی جنت ملے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ایک بیٹی کی وجہ سے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بیٹیوں سے پیار و محبت عطا فرما کر ان سے حسن سلوک


کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔


آمین بجاہ النبی الرحمۃ علی البنات والبنین ۔ صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہ 

No comments:

Post a Comment