Daily Islamic Posts

Islam Is The Religion Of Peace

About Author

ABDUL BASIT PRINCE GABOL, Karachi, Pakistan

Breaking

Specially for you

Thursday 10 March 2022

منگنی کی شرعی حیثیت اور چند رسومات





بسم الله الرحمن الرحيم

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنتُمْ فِي أَنفُسِكُمْ ۚ
(سورة البقرة، رقم الآية: 235)

ترجمہ: اور عورتوں کو اشارہ پیغام نکاح (منگنی) دینے یا اپنے دل میں ( ارادہ نکاح کو پوشید ور کھنے میں تم پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں۔

:منگنی کی شرعی حیثیت
اسلام میں منگنی کی شرعی حیثیت و عدہ نکاح کی ہے ۔ اور وعدہ کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جاۓ۔ ہاں البتہ اگر کوئی شرعی مجبوری ہو تو اس کو منگنی ختم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

فائدہ: شرعی مجبوری سے مراد یہ ہے کہ جہاں نکاح کر لینے میں عقائد کی خرابی یا سنت کی مخالفت لازم آرہی ہو مثلا لڑکے والے خود بد عقیدہ ہوں یا ان کے ہاں بد عقیدہ لوگوں کا آنا جانا کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہو جس سے اس لڑکی کے بد عقیدہ ہونے کا اندیشہ ہو یا لڑکے والے کے گھر کا ماحول دینداری والا نہ ہو ۔ یعنی اس کے گھر میں بدعات و رسومات موجود ہوں ، کھلم کھلا کبیرہ گناہ ہوتے ہوں ، غیر محروموں کا آنا جانا ہو اور پردے کا ماحول نہ ہو۔

:سیدہ سودہ بنت زمعہ سیدہ عائشہ صدیقہ ا کی منگنی
عن محمد بن عمرو، و رو، قال: حدثنا أبو سلمة، ويحيى، قالا: لها هلكت خديجة جاءت خولة بنت حكيم امرأة عثمان بن مظعون قالت: يارسول الله الا تزوج قال: من قالت: إن شئت بكرا، وإن شئت ثيبا قال: فمن البكر قالت: البته أحب خلق الله عز وجل إليك عائشة بنت أبي بكر قال: ومن الثيب قالت: سودة بنت زمعة أمنت بك واتبعتك على ما تقول قال: فاذقى فاذ گريهما على فدخلت بيت أبي بكر فقالت: يا أم رومان ماذا أدخل الله عز وجل عليكم من الخير والبركة قالت: وما ذاك قالت:أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم أخطب عليه عائشة، قالت: انتظرى أبا بكر حتى يأتي فجاء أبو بكر فقالت: يا أبا بكر ماذا أدخل الله عز وجل عليكم من الخير والبركة؛ قال: وما ذاك؟ قالت: أرسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم أخطب عليه عائشة قال: وقل تضلة له إلما هي ابنة أخيه فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له قال: از جعى إليه فقولي له: أنا أخوك وأنت أخي في الإسلام وابنتك تصلح لي فرجعت فذكرت ذلك له
( مسند احمد ،رقم الحدیث:25769)

ترجمہ: حضرت ابو سلمہ اور یحی بن عبد الرحمن بن حاطب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کو ایک غمگسار رفیقہ حیات کی ضرورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس جگہ پیغام دینے کا خیال ہے ؟ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ کسی کنواری سے نکاح فرمانا پسند کریں تو آپ کے نزدیک تمام مخلوق میں جو سب سے زیادہ محبوب ہے ابو بکر ، اس کی بیٹی عائشہ سے موجود ہے ان سے نکاح فرمالیں اور اگر کسی بیوہ سے نکاح فرمانا چاہیں تو سودہ بنت زمعہ موجود ہے جو آپ پر ایمان بھی لا چکی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دونوں جگہ پیغام دے دیں۔(ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لے کر گئیں ، جو انہوں نے بصد سعادت قبول کیا اور اس کے بعد سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نکاح لے کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر بھی گئیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ محترمہ سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام نکاح دیا اور فرمایا ام رومان اللہ تعالی نے آپ کے گھرانے میں بہت خیر و برکت رکھی ہے، سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتظار کر لینا چاہیے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہیں سارا معاملہ بتایا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو میرے بھائی ہیں اس نسبت سے تو میری بیٹی عائشہ ان کی بھتیجی ہوئی۔ بھتیجی سے نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ میرے دینی بھائی ہیں لہذا نکاح جائز ہے۔ سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا واپس تشریف لائیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی اطلاع کی۔ صدیقی گھرانے نے اس سعادت پر دل و جان سے لبیک کہا۔

:أم المومنین سیدہ حفصہ ؓ کی منگنی
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما بحيث أن عمر بن الخطاب حين تأتمت حفصة بنت عمر من خنيس بن حذافة الشهوي وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد شهد بدرا توفي بالمدينة قال عمر فلقيت عثمان بن عفان فعرضت عليه حفصة فقلت إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر قال سأنظر في أمرى فلبثت ليالي فقال قد بدا لي أن لا أتزوج يومي هذا قال غمر قلقيت أبا بكر فقلت إن شئت أنكحتك حفصة بنت عمر فصمت أبو بكر فلم يرجع إلى شيئا فكنت عليه أوجد متى على عثمان فلبثت ليالي ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر فقال لعلك وجدت على حين عرضت على خفضة فلم أرجع إليك قلت نعم قال فإنه لم يمتعني أن أرجع إليك فيما عرضت إلا أني قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها فلم أكن لأقوى بير رسول الله صلى الله عليه وسلم ولوتركها لقبلتها
(صحیح البخاری، رقم الحدیث:4005)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب (میری بیٹی ) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے شوہر خنیس بن حذافہ السمی رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور انہی زخموں کی وجہ سے مدینہ منورہ میں آکر شہادت پائی جس کی وجہ سے میری بیٹی حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں ۔ تو میں نے اپنی بیٹی سے رشتے کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کی کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح اپنی بیٹی حفصہ سے کر دوں؟ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سوچنے کے لیے کچھ دن کا وقت لے لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کچھ دن بعد دوبارہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اس بارے دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ سوچا ہے کہ ابھی میں نکاح نہ کروں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات کی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی بات کو بغور سن تو لیا لیکن کوئی جواب دیے بغیر خاموش ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ طرز عمل میرے لیے عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ باعث تکلیف ہوا۔ میں نے کچھ دن تو قف کیا۔ اس کے بعد خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے لیے پیغام نکاح بھیجا اور میں نے اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ کچھ دن بعد میری ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: عمر شاید آپ کو میرے طرز عمل سے تکلیف ہوئی ہو گی کہ آپ نے اپنی بیٹی حفصہ سے نکاح کے لیے مجھ سے بات کی تھی اس پر میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: بالکل تکلیف تو ہوئی ہے ۔ تب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اصل بات یہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ آپ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں خود نکاح فرمانے کی بات کی تھی ۔ اور میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کروں ۔ اس لیے میں نے آپ کو جو اب نہیں دیا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکاح نہ فرماتے تو میں آپ کی بیٹی سے ضرور نکاح کر لیتا۔

فائدہ: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لڑکی والے بھی لڑکے والوں کو پیغام نکاح دے سکتے ہیں یہ کوئی عار کی بات نہیں۔

:خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ کی منگنی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اور آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام نکاح بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے پیغام نکاح دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ہمراہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر بھیج دیا۔
(المعجم الكبير للطبرانی، رقم الحدیث:1020)

فائدہ: ہم نے نمونے کے طور پر چند مبارک مخنیوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کی ازواج مطہرات ، بنات ، اصحاب اور آل رضی اللہ عنہم اجمعین سب کے سب کی شادیاں سادگی اور بے تکلفی کا مظہر تھیں۔

:منگنی پر منگنی
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم: لا تخطب الرجل على خطبة أخيه
(سنن ابن ماجہ ، رقم الحدیث:1867)


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے ۔ یعنی اگر کسی لڑکے کی کسی لڑکی کے ہاں منگنی ہو چکی ہے تو اب یہ ان سے منگنی نہ کرے۔


:منگنی کے موقع پر انگو ٹھی کا تبادلہ

آج کل منگنی کے موقع پر ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنائی جاتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپس میں ہدیہ دینے اور لینے سے محبت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ اب ہدیہ کے بجاۓ رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ جس میں کئی گناہ پاۓ

جاتے ہیں۔ 

❶: منگیتر ایک دوسرے کو پہناتے ہیں جو کہ شرعا غیر محرم ہیں اور ایک دوسرے کو چھو بھی نہیں سکتے ۔


❷ : بعض لوگ منگنی کی انگوٹھی کو متبرک سمجھتے ہیں۔ 

❸: بعض لوگ انگوٹھیوں پر لڑکے اور لڑکی کا نام لکھوا لیتے ہیں اور اس کو باہمی محبت پر اثر اند از مانتے ہیں۔


❹: مردوں کو بھی سونے کی انگوٹھی پہنا دی جاتی ہے جس کا استعمال مرد پر حرام ہے۔

❺: بعض لوگوں کا جہالت کی وجہ سے یہ اعتقاد ہے کہ بغیر انگو ٹھی کے منگنی کو درست اور پائیدار نہیں ہوتی۔


:منگنی کے موقع پر پھولوں کی مالا ڈالنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو گلے میں پھولوں کی مالا ڈالتے ہیں۔ 


:منگنی پر فضول خرچی

منگنی کی حیثیت محض وعدۂ نکاح ہے اس میں فضول خرچی کرتے ہوئے مہمانوں کو دور دور سے بلاناء مستقل اور مہنگی تقریبات کرنا، قرض اٹھا کر اسے پورا کر نا وغیرہ ساری ایسی باتیں ہیں جس کی شریعت اسلامیہ میں ممانعت ہے ۔


:منگیتر اجنبی ہے

جب تک نکاح نہ ہو جائے اس وقت تک منگیتر آپس میں اجنبی رہتے ہیں۔ ان کے لیے شرعاً وہی احکام ہوتے ہیں جو اجنبیوں کےلیے ہوتے ہیں۔


:منگیتر سے پردہ

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑ کا اور لڑ کی بغیر پروہ کے آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کے لیے پردے والا حکم باقی نہیں ہے ۔ یہ بہت بڑی غلطی اور جہالت والی بات ہے۔


:منگیتر کے ساتھ گھومنا پھرنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکا اور لڑ کی اکٹھے گھومنے پھرنے جاتے ہیں ، اکٹھے سفر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے لیے ان کاموں کی شرعی طور پر گنجائش موجود ہے حالانکہ یہ بات کسی طور پر بھی درست نہیں بلکہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ منگنی کے باوجود بھی شرعی طور پر لڑکا اور لڑکی آپس میں اجنبی ہی رہتے ہیں۔


:منگیتر سے بلاضرورت باتیں کرنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی آپس میں بلاضر ورت بات چیت ، گپ شپ، میسجز ، موبائل کال اور ایک دوسرے کو ویڈیو کال کرتے ہیں ۔ ان کا آپس میں اس طرح بلاضرورت شدیدہ انتگو کر ناشر عاحرام ہے اور بہت سارے اخلاقی جرائم کا پیش خیمہ ہے۔


:منگیتر کے ہاں رہنا

ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے عنوان سے منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی اکٹھے رہتے ہیں ۔ ان کا اس طرح اکٹھے رہنا ایسے ہی گناہ ہے جیسے دو غیر محرموں اور اجنبیوں کا اکٹھے رہنا گناہ ہے ۔ محض منگنی سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے لیے شرعا محرم نہیں بنتے ۔ اس لیے وہی حدود قیود ہوں گے جو اجنبیوں کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ افسوس کہ اس معاملے میں غفلت یالا علمی کی وجہ سے لڑکا اور لڑکی آپس میں جنسی تعلق قائم کر لیتے ہیں جو کہ سراسر خالص زنا ہے۔


:منگنی کے بعد نکاح میں جلدی کریں

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إلا تفعلوا لكن فنتة في الأرض وفساد عريض

(جامع الترمذی، رقم الحدیث:1084) 


ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ کے پاس کوئی شخص ( تمہاری بچیوں کے لیے )


نکاح کا پیغام بھیجے اور آپ اس کی دینداری اور حسن اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام نکاح قبول کر کے اپنی بچیوں کا نکاح اس سے کر دو۔ اور اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین پر بہت بڑا جنسی گناہوں کا فساد بر پا ہو جاۓ گا۔

:لمحہ فکریہ
منگنی فرض و واجب نہیں زیادہ سے زیادہ اس کی اجازت اور گنجائش ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں اس کا عملی نمونہ بھی پایا جاتا ہے۔ اگر اسی طرز اور سوچ و فکر کے ساتھ کی جائے تو اسے سنت کہنا بھی درست ہو گا ۔ لیکن ہمارے زمانے کی منگنیاں اور اس پر ہونے والی رسومات و خرافات جس کا اکثر حصہ غیر مسلموں کی مشابہت پر مبنی ہے اس طرح کی منگنی کی کسی طرح بھی شریعت اجازت نہیں دیتی۔

اسی موقع پر لڑکی والے کچھ لکھت پڑھت بھی کراتے ہیں کہ آپ ہماری بچی کو الگ مکان ، اتنے تولے سونا، زیورات ، ماہانہ سالانہ خرچ ، طلاق کی صورت میں اتنی اتنی رقم دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی غیر اخلاقی بات ہے ۔ اور مشاہد ہ بتلاتا ہے کہ اس وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔ آپ پہلے سے ہی ایسے لڑکے کا انتخاب کر میں جو آپ کی بچی کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے۔
اللہ تعالی احکام شریعت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب مدظلہم العالیہ


No comments:

Post a Comment