Daily Islamic Posts

Islam Is The Religion Of Peace

About Author

ABDUL BASIT PRINCE GABOL, Karachi, Pakistan

Breaking

Specially for you

Tuesday, 1 March 2022

اسلام روکتا ہے حسد و نجش سے (اوّل)





بسم اللہ الرحمن الرحيم

اللہ تعالی ہمیں تمام نیک اوصاف اپنانے اور برے اوصاف سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اس سے متعلقہ ایک حدیث رت4رءءفگمبارک پیش کی جاتی ہے ۔
وعن أبي هريرة  قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّه ﷺ: لا تَحاسدُوا، وَلا تناجشُوا، وَلا تَباغَضُوا، وَلا تَدابرُوا، وَلا يبِعْ بعْضُكُمْ عَلَى بيْعِ بعْضٍ، وكُونُوا عِبادَ اللَّه إِخْوانًا، المُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِم: لا يَظلِمُه، وَلا يَحْقِرُهُ، وَلا يَخْذُلُهُ، التَّقْوَى هَاهُنا ويُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلاثَ مرَّاتٍ بِحسْبِ امرئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِر أَخاهُ المُسْلِمَ، كُلّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حرامٌ: دمُهُ، ومالُهُ، وعِرْضُهُ رواه مسلم.

صحیح مسلم برقم الحدیث:3 663 ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھو کہ نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ، ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو ، کسی کے بھاؤ تاؤ پر بھاؤ نہ لگاؤ، اللہ کے بندو! ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہو ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس لیے اس پر ظلم نہ کرے ، اسے رسوانہ کرے ، اسے ( کیچی بات میں تجھٹلائے نہیں اور اس کی اہانت نہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا: تقوی کی جگہ یہ (دل) ہے ۔ مزید ارشاد فرمایا: انسان کے شریر ہونے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت ( کو نقصان پہنچانا حرام ہے ۔

مذکورہ حدیث مبارک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے نمبر پر جس برے وصف سے منع فرمایا ہے ، وہ باہمی حسد ہے۔

حسد کا معنی:

حسد کا معنی یہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی دینی یا دنیاوی نعمت مثلاً مال و دولت ، حسن و جمال ، شہرت و مقبولیت ، صلاحیت و استعداد یا علم و دیانت و غیره دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ کاش وہ نعمت اس کے بجاۓ مجھے مل جاۓ یا کم از کم اس کے پاس بھی نہ رہے۔ حسد کرنے والا یہ چاہتا ہے کہ جیسے میں اس نعمت سے محروم ہوں دوسرا شخص بھی محروم ہو جائے۔

حسد نیکیوں کو تباہ کر دیتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ  قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ. أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ.
سنن ابی دو در قم الحدیث:4257)

ترجمہ: حضرت ابو ہریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو حسد سے خوب اچھی طرح بچاؤ کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے خشک لکڑیوں کو آگ ختم کر دیتی ہے ۔ وہ انسان کس قدر بے وقوف ہو گا جو نیکیاں کم گناہ زیادہ کر تا ہے لیکن اس سے بڑا ایک اور بے وقوف ہے جو نیکیاں کم کرنے کے باوجود ان کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

وَلَا تَكُـوْنُـوْا كَالَّتِىْ نَقَضَتْ غَزْلَـهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًا ۖ
(سورۃ النحل، آیت نمبر 92)

ترجمہ: اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جو محنت سے سوت کاتے پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔

اسلام روکتا ہے، حسد سے اور بحش سے

حسد خیر کادشمن:

عن ضمرة بن ثعلبة- رضي الله عنه- قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: «لا يزال الناس بخير ما لم يتحاسدوا»
النجم الكبير للطبرانی در قم الحدیث:8157

ترجمہ: حضرت عمرو بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک سلامت رہیں گے جب تک وہ ایک

دوسرے پر حسد نہ کر یں گے ۔

نجش دھوکہ بازی سے بچیں:

مذکورہ حدیث مبارک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے نمبر پر جس برے وصف سے منع فرمایا ہے ، وہ دھو کہ بازی ہے ۔ نجش کا معنی: سے ہے۔

1 خرید و فروخت میں دھوکہ بازی 2... ہر معاملے میں دھوکہ بازی

3... سود خوری

خرید و فروخت میں دھوکہ بازی:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّجْشِ

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں دھوکہ بازی سے منع فرمایا ہے ۔ سامان کے ساتھ کسی اور چیز کو خریدنے کی شرط لگانا جس کی وجہ سے دکاندار ( بیچنے والے کو فائد ہ ہو اور خریدار کو نقصان ہو اسے فقہ اسلامی میں بیچ نجش کہتے ہیں۔ اس طرح کر نا شرعا گناہ ہے ۔

ہر معاملے میں دھوکہ بازی: عن عبد اللہ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:  من غشَّنا فليسَ منَّا والمَكرُ والخداعُ في النَّارِ صحیح ابن حبان، رقم الحدیث:5559

ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ہمارے (اہل اسلام سے دھو کہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ، مکر و فریب اور دھو کہ بازی جہنم جانے کا ذریعہ ہے۔

دھو کہ باز ملعون ہے:

عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه مرفوعا { ملعون من ضار مؤمنا أو مكر به

جامع انترنڈی، رقم الحدیث:1941

ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ملعون ہے جو کسی مومن کو دھوکہ دے یا اس

کے ساتھ مکر وفریب کرے۔ فائدہ: اسلام میں دھوکہ بازی حرام ہے کیونکہ اس سے جانی / مالی نقصان ہو تا

                              ہے ۔ اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جس میں کسی مسلمان کو نقصان پہنچتا ہو۔


سودخوری:

اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ (سورۃ البقرہ ۲۷۵)


ترجمہ: سود کھانے والے لوگ جب قیامت والے دن قبروں سے انھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس( پاگل بنا دیا ہو یہ (عذاب ) اس لیے ہو گا کہ دنیا میں یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ بچے بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالی نے بیچ کو حلال جبکہ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت ( سود کی واضح حرمت ) آگئی ہو اور وہ اس کی وجہ سے سودی معاملات سے آئندہ کے لیے باز آ گیا تو گزشتہ زمانے میں جو کچھ سودی معاملہ ہو چکا، سو وہ ہو چکا ۔ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے ۔ اور جو شخص دوبارہ سو دوالے حرام کام کی طرف لوٹاوہ جہنمی ہے وہ ہمیشہ اس


میں رہے گا۔ اللہ سود کو گھٹاتے ہیں:


يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ

(سورة البقرة رقم 276)


ترجمہ: اللہ تعالی سود کے مال کو گھٹاتے ہیں اور صدقہ کے مال کو بڑھاتے ہیں۔


عن ابن مسعود رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم مسند احمد ،رقم الحدیث:3754


"الرِّبا وإنْ كثُرَ، فإنَّ عاقِبتَه تَصيرُ إلى قُلٍّ"


ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود اگر چہ دیکھنے کے اعتبار سے زیادہ ہی دکھائی دے


لیکن انجام کے اعتبار سے کم ہی ہو تا ہے۔


:سودی معاملات کرنے والوں پر لعن:


عن جابر بن عبدالله رضي الله عنهما قال: (لعَن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله، وكاتبه وشاهديه))، وقال: ((هم سواءٌ))؛ رواه مسلم


. صحیح مسلم در قم اللہ بیٹ: 4100


ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے ، سود دینے ، سودی حسابات و معاملات لکھنے اور سودی لین دین پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ تمام لوگ گناہ گار ہونے میں برابر کے شریک ہیں۔


... جاری ہے


اللہ تعالی عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

No comments:

Post a Comment